مرتبت ، فقہ شافعی کے زبردست عالم اور مذاہب سلف سے باخبرتھے اورحضرت سیِّدُنا امام ابوالقاسم قُشَیْریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی (متوفی۴۱۷ھ )کے جلیل القدر شاگردوں میں سے ہیں ۔(۱)
باطنی علوم کی تلاش:
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ۴۷۸ھ تا۴۸۴ھ سرتاجِ مدارسِ اسلامیہ مدرسہ نظامیہ نَیْشاپُورمیں ’’اِمامُ الْحَرَمَیْن‘‘ پھر۴۸۴ھ تا۴۸۸ھ مرکزعلومِ اسلامیہ مدرسہ نظامیہ بغداد میں ’’مدرسِ اعلیٰ‘‘ کے منصب پرفائزرہے۔سلطانِ وقت اور ملک بھر کے علما وفضلا آپ کے تبحرعلمی کے قائل ہوگئے اورایک وقت ایسا بھی آیاکہ بادشاہِ وقت سے زیادہ امام صاحب کاسکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھ گیا۔سلطنت سلجوقیہ کے وزیراعظم نظام الملک طوسی توآپ کے بڑے معتقدتھے اوروہ بنفس نفیس امورمملکت میں آپ سے مشورہ کرتے تھے ۔تمام علوم کی تکمیل کے بعداولاً امام الحرمین پھر مدرسِ اعلیٰ جیسے عہدوں پر متمکن رہنے کے باوجود آپ کوجس باطنی وروحانی سکون کی تلاش تھی وہ حاصل نہ ہوسکا۔ بغدادجواس وقت مختلف فرقوں اورباطل مذاہب کے بے جا مناظروں اورمجادلوں کا دنگل بناہواتھااوردارالخلافہ پرانتشار اورفتنہ وفساد کی کیفیت طاری تھی۔(۲) اس وقت چارفرقے زیادہ شہرت کے حامل تھے متکلمین،باطنیہ ، فلاسفہ اورصوفیہ، آپ نے ان فرقوں کے علوم وعقائد کی تحقیق شروع کی ۔اس تحقیق وجستجو سے اضطراب اوربڑھ گیامگر جب تصوف پر موجود کتب کامطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ صرف علم کافی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ۔چنانچہ،
آپ اپنی کتاب ’’اَ لْمُنْقَذمِنَ الضَّلَال وَالْمُفَصَّح عَنِ الْاَحْوَال‘‘ میں خودفرماتے ہیں :’’ان واقعات سے تحریک پیداہوئی کہ تمام تعلقات کو ترک کرکے بغدادسے نکل جاؤں ،نفس کسی طرح بھی ترک تعلقات پر آمادہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس کوشہرت عامہ اور شان وشوکت حاصل تھی۔رجب ۴۸۸ھ میں یہ خیال پیدا ہوا تھا لیکن نفس کے لیت ولعل(ٹال مٹول) کے باعث اس پر عمل نہ کر سکا ۔اس ذہنی اور نفسانی کشمکش نے مجھے سخت بیمار کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ زبان کو یارائے گویائی نہ رہا قوت ہضم بالکل ختم ہوگئی طبیبوں نے بھی صاف جواب دے دیا اور کہا کہ ایسی حالت میں علاج سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا آخر کار میں نے سفر کا قطعی ارادہ کر لیا۔ امرائے وقت، ارکانِ سلطنت اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…اتحاف السادۃ المتّقین، مقدمۃ الکتاب، ج۱، ص۲۶۔
2… مقدمہ احیاء العلوم (مترجم ازعلامہ محمدصدیق ہزاروی مدظلہ العالی)، ج۱، ص۱۹، ملخصًا۔