پر خرچ کرتے اوران کی مجالس میں خوفِ خداسے تضرع وزاری کرتے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرتے کہ ’’مجھے بیٹا عطاکر اور اسے فقیہ(عالِم) بنا۔‘‘نیز اسی طرح مجالسِ وعظ میں حاضر ہوتے۔ وہاں بھی روروکر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاکرتے کہ ’’مجھے بیٹا عطاکر اوراسے واعظ بنا۔‘‘اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے ان کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں ۔(۱)
علمی زندگی
تعلیم کے لئے سفر:
ابتدائی تعلیم اپنے شہرمیں ہی حاصل کی جہاں کتب فقہ حضرت سیِّدُنا احمد بن محمد راذکانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سے پڑھیں …ابھی عمرشریف20 سال سے کم ہی تھی کہ (ایران کے مشرقی شہر)جرجان تشریف لے گئے وہاں حضرت سیِّدُنا امام ابو نصر اسماعیلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی کی خدمت میں کچھ عرصہ رہے ۔ پھراپنے شہر طوس لوٹ آئے…۴۷۳ھ میں (ایران کے قدیم شہر)نیشا پورمیں حضرت سیِّدُنا اِمامُ الْحَرَمَیْن امام عبدالملک بن عبداللّٰہ جوینی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی(متوفی۴۷۸ھ)کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کیا اور ان سے اُصولِ دین، اختلافی مسائل، مناظرہ، منطق اور حکمت وغیرہ میں مہارتِ تامہ حاصل کی…۴۷۸ھ میں حضرت سیِّدُنا اِمامُ الْحَرَمَیْن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال کے بعدان کی جگہ آپ کواس منصب اعلی پرفائز کیاگیا…۴۸۴ھ میں وزیر نظامُ الملک نے مدرسہ نظامیہ بغدادکے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) کا عہد ہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہکو پیش کیاجسے آپ نے قبول فرمالیا…چار سال بغداد میں تدریس و تصنیف میں مشغولیت کے بعدحج کے ارادے سے مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔بقول علامہ ابن جوزی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی (متوفی۵۹۷ء)’’بغدادمیں آپ کی مجلس درس میں بڑے بڑے علمائے کرام حاضر ہوتے جیسے اِمَامُ الْحَنَابِلَہ حضرت سیِّدُنا ابوالخطاب محفوظ بن احمد (متوفی۵۱۰ھ) اورعالم العراق وشیخ الحنابلہ علی بن عقیل بغدادی(متوفی۵۱۳ھ) رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہِمَا وغیرہ ۔یہ حضرات آپ سے اکتساب فیض کرتے اور آپ کے بیان پرحیرت کا اظہار کرتے اور آپ کے کلام کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے۔‘‘(۲)… ۴۸۹ھ میں دمشق پہنچے اور کچھ دن وہاں قیام فرمایا ۔ ایک عرصہ بیتُ الْمُقَدَّس میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۴۔
2…المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، ج۹، ص۱۶۸۔