حضرت سیِّدُناعلامہ سیِّد محمد بن محمد حسینی مرتضیٰ زَبَیْد ِی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’جہاد بالنفس سے مراد یہ ہے کہ نفس کو رضائے الٰہی کے لئے عبادات پر مجبور کیا جائے اور نافرمانی سے روکاجائے ، اسے جہاد اکبر اس لئے فرمایا گیاکہ جو اپنے نفس سے جہاد نہیں کرسکتا اس کے لئے خارجی دشمن سے جہاد کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ جو دشمن دو پہلوؤں کے درمیان ہے اورغالب ہے، جب اس سے جہاد نہیں ہوپارہاتو خارجی دشمن سے جہاد کیونکر ممکن ہوگالہٰذا خارجی کے مقابلے میں باطنی دشمن سے جہادجہادِ اکبر ہے۔‘‘(۱)
پھر حقیقت تو یہ ہے کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اسی کا عمل قبول فرماتا ہے جس کا باطن پاک اور تقویٰ و پرہیزگاری سے مزین وآراستہ ہو۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنۡکُمْ ؕ(پ۱۷،الحج:۳۷)
ترجمۂ کنزالایمان: اللّٰہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک بار یاب ہوتی ہے۔
اوریوں ہی اس سلسلے میں یہ فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے: ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَلَا اِلٰی اَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُاِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمیعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ صرف تمہاری صورتیں اور تمہارے اموال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو بھی دیکھتا ہے۔‘‘مطلب یہ ہے کہ رب تعالیٰ فقط صورت نہیں دیکھتا سیرت بھی دیکھتا ہے۔(۲)
زیر نظر کتاب حُجَّۃُ الْاِسْلامحضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد بن احمد غزالی شافعی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی (متوفی۵۰۵ھ) کی تصوف پرمشہورومعروف اورمعرکۃ الآراء تصنیف ’’اِحْیَاءُ عُلُوْمِ الدِّیْن‘‘{مطبوعہ: دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،۲۰۰۸ء}کی پہلی جلدکاترجمہ ہے۔یوں توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ کی ہر تصنیف علم وعرفان کا بیش بہا خزانہ ہے مگر اِحْیَاءُ الْعُلُوْمایسی کتاب ہے جواپنی مثال آپ ہے ۔اس کاگہرامطالعہ اورپھربیان کردہ باتوں پرعمل تزکیہ نفس کے لئے اکسیرکادرجہ رکھتاہے ۔اس میں روز مرہ زندگی کے کم وبیش تمام ہی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ الغرض قرآن وسنت کی تعلیمات کانچوڑ اورسلف صالحین کی زندگیوں کاماحاصل یہ کتاب انسان کو ’’کامل انسان‘‘ بنانے میں بے حد معاون ہے۔