بھی پانی سے نہیں دھویا جا سکتا۔ یہ کہہ کر بی بی کی طرف آئے اور اسے خبردی کہ فرزندِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ابنِ فاطمِہ بَتُول، گلشنِ مولیٰ علی کے مہکتے پھول میدانِ کربلا میں رَنجیدہ و مَلُول ہیں۔ غدّاروں نے ان پر نَرغہ کیا ہے۔ میری تمنّا ہے کہ ان پر جان قربان کروں۔ یہ سن کر نئی دُلہن نے ایک آہِ سرددلِ پُر درد سے کھینچی اور کہنے لگی: اے میرے سرکے تاج ! افسوس کہ میں اس جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ شریعتِ اِسلامیہ نے عورتوں کو لڑنے کے لئے میدان میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ افسوس ! اِس سعادَت میں میرا حصّہ نہیں کہ تیرے ساتھ میں بھی دشمنوں سے لڑ کر امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر اپنی جان قربان کروں۔ سبحٰنَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ نے تو جنّتی چَمَنِستان کا ارادہ کر لیا وہاں حُوریں آپ کی خدمت کی آرزُومند ہو ں گی۔ بس ایک کرم فرما دیں کہ جب سردار انِ اہلبیت عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ جنّت میں آپ کیلئے نعمتیں حاضِر کی جائیں گی اور جنّتی حُوریں آپ کی خدمت کیلئے حاضِر ہوں گی، اُس وَقت آپ مجھے بھی ہمراہ رکھیں۔ حُسینی دُولھا اپنی اُس نیک دُلہن اور برگُزِیدہ ماں کو لے کر فرزندِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضِر ہوا۔ دُلہن نے عرض کی:اے اِبْنَ رسول! شُہَداء گھوڑے سے زمین پر گرتے ہی حُوروں کی گود میں پہنچتے ہیں اورغِلمانِ جنّت کمالِ اطاعت شِعاری کے ساتھ ان کی خدمت کرتے ہیں۔’’ یہ‘‘ حُضُورپر جاں نثاری کی تمنّا رکھتے ہیں۔ اور میں نہایت ہی بے کس ہوں ، کوئی ایسے رِشتہ دار بھی نہیں جو میری خبر گیری کر سکیں۔ التِجا