Brailvi Books

حُسینی دُولھا
4 - 16
نِڈھال ہے۔ میرے لال! کیا تجھ سے ہو سکتا ہے کہ تُو اپنی جان اس کے قدموں پر قربان کر ڈالے ! اِس بے غیرت زندگی پر ہزار تُف ہے کہ ہم زندہ رہیں اور سلطانِ مدینۂ منوَّرہ ، شہنشاہِ  مکۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لاڈلا شہزادہ ظلم و جَفاکے ساتھ شہید کر دیا جائے۔اگر تجھے میری مَحَبَّتیں کچھ یاد ہوں اور تیری پرورش میں جومشَقَّتیں میں نے اٹھائی ہیں ان کو تُو بھولا نہ ہو تو اے میرے چمن کے مہکتے پھول ! تُوپیارے حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر پر صَدقے ہو جا۔ حُسینی دولھا سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے مادرِ مہربان ، خوبیٔ نصیب ، یہ جان شہزادہ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  پر قربان ہو میں دل و جان سے آمادہ ہوں ، ایک لمحہ کی اجازت چاہتا ہوں تا کہ اُس بی بی سے دو باتیں کر لوں جس نے اپنی زندگی کے عیش و راحت کا سہرا میرے سر پر باندھا ہے اور جس کے ارمان میرے سوا کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔ اس کی حسرتوں کے تڑپنے کا خیال ہے، اگر وہ چاہے تو میں اس کو اجازت دے دوں کہ وہ اپنی زندگی کوجس طرح چاہے گزارے۔ ماں نے کہا : بیٹا ! عورتیں ناقِصُ الْعقل ہوتی ہیں ، مَبادا تو اُس کی باتوں میں آجائے اور یہ سعادت سَرمَدی تیرے ہاتھوں سے جاتی رہے۔
	حُسینی دولھا سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: پیاری ماں ! اما مِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مَحَبَّت کی گرہ دل میں ایسی مضبوط لگی ہے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو کوئی کھول نہیں سکتا اور ان کی جاں نثاری کا نقش دل پر اس طرح کندہ ہے جو دنیا کے کسی