Brailvi Books

حُسینی دُولھا
3 - 16
یہی ایک نو جوان بیٹا تھا۔ مادرِ مُشْفِقَہ نے رونا شروع کر دیا۔ بیٹا حیرت میں آ کر ماں سے پوچھتا ہے: پیاری ماں ! رنج و ملال کا سبب کیا ہے؟ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اپنی عمر میں کبھی آپ کی نافرمانی کی ہو، نہ آئندہ ایسی جرأت کر سکتا ہوں۔ آپ کی اطاعت و فرماں برداری مجھ پر فرض ہے اور میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ تابہ زندگی مُطیع و فرمانبردار ہی رہوں گا۔ ماں ! آپ کے دل کو کیا صدمہ پہنچا اور آپ کو کس غم نے رُلایا؟ میری پیاری ماں ! میں آپ کے حکم پر جان بھی فِدا کرنے کو تیّار ہوں آپ غمگین نہ ہوں۔ 
	سعادت مند اکلوتے بیٹے کی یہ سعادت مندانہ گفتگو سُن کر ماں اوربھی چیخ ما ر کر رونے لگی اور کہنے لگی: اے فرزندِدِلبند ! تُو میری آنکھ کا نور، میرے دل کا سُرور ہے اے میرے گھر کے روشن چَراغ اور میرے باغ کے مَہکتے پھول ! میں نے اپنی جان گھلا گھلا کر تیری جوانی کی بہار پائی ہے۔ تُو ہی میرے دل کا قرار اور میری جان کا چَین ہے۔ ایک پَل تیری جدائی اور ایک لمحہ تیرا فِراق مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا۔
چُو دَر خَواب باشَم تُوئی دَر خَیالَم
چُو بَیدار گردَم تُوئی دَر ضَمِیرَم
(یعنی جب سوؤں تو میرے خوابوں اور خیالوں میں بھی تو اور جب جاگوں تو میرے دل کی یادوں میں بھی تو)اے جان مادر! میں نے تجھے اپنا خونِ جگر پلایا ہے۔ آج اِس وقت دشتِ کربلا میں نواسۂ محبوبِ رَبّ ذُوالجلال ، مولیٰ مشکلکشا کا لال، خاتونِ جنّت کا نونہال، شہزداۂ خوش خِصا ل ظلم وستَم سے