ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: یَا اَبَا عُمَیْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ ابوعمیر! چڑیا کا کیا ہوا؟ (1)
آزمائش کا دَور
زندگی کے دن اس طرح راضی خوشی بسر ہو رہے تھے۔ ننھے ابوعمیر کی وجہ سے ان کا آنگن (صحن) خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بچے ہوتے ہی گھر کی رونق ہیں، انسان دن بھر کے کام کاج سے تھکا ماندہ جب شام کو واپس گھر آتا ہے تو بچوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ دیکھ کر اور چند پل ان کے ساتھ گُزَار کر ہی اس کی ساری تھکن دُور ہو جاتی ہے اور ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے، یہ خوشی مال ودولت سے نہیں خریدی جا سکتی جو بچوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر حاصِل ہوتی ہے۔ اس گھر کی رونق بھی یہ مدنی منّے ابوعمیر تھے جن سے یہ گھر فرحت وانبساط کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ باپ کو اپنے اس مدنی منّے سے بہت پیار تھا۔ منظورِ الٰہی ہوا کہ اس مدنی منّے کے ذریعے ان کا امتحان لیا جائے چنانچہ ”ایک روز یہ مدنی منّے بہت سخت بیمار پڑ گئے۔ والِدَین کو اس سے بہت فکر لاحِق ہوئی، خاص طور پر والِد صاحب کو دِلی طور پر اس کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ اس صدمے کی وجہ سے وہ خود کمزور ہو گئے۔“ (2) یہ ان کا فطری ردِّ عمل تھا کیونکہ فطری طور پر اولاد کو پہنچے والی تکلیف والِدَین کے دل گھائل کر دیتی ہے جس کا اثر دیگر اَعْضا پر پڑتا ہے تو وہ سست اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس فطری ردِّ عمل کے عِلاوہ یہ حضرات رِضائے الٰہی میں راضی تھے لہٰذا کبھی زبان پر حرفِ شکایت لائے اور نہ کبھی دل میں اسے جگہ دی،
________________________________
1 - مسند امام احمد، مسند انس بن مالك رضى الله تعالٰى عنه، ٥ / ٣٢١، حديث:١٢٤٦٦.
2 - صحيح ابن حبان، كتاب اخباره صلى الله عليه وسلم عن مناقب الصحابه الخ، ذكر وصف تزوج ابى طلحة ام سليم، ص١٩٢٥، حديث:٧١٨٧ ،بتغير.