خوشی اور غم دُنیوی زندگی کے دو۲ اہم اور لازِمی جُز ہیں لیکن ان میں سے کسی کو دَوام (ہمیشگی) نہیں، ایک پَل مصیبت ہے تو دوسرے پَل راحت، کرتے کرتے یوں ہی عمر بسر ہو جاتی ہے۔ البتہ خوشی کے لمحات چاہے جس قدر بھی طویل ہوں غیر محسوس طور پر ایسے گزر جاتے ہیں گویا ایک آن کے لیے تھے۔ اس کے برعکس رنج ومصیبت کا چند پل کا وقفہ بھی صدیوں کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ایک عام انسان جس کی نظر فقط دنیا اور اس کی آسائشوں پر ہوتی ہے، تنگی وپریشانی اور آزمائش کی معمولی سی گھڑی بھی اس کے لیے سوہانِ روح (اذیت ناک) بن جاتی ہے اور وہ بےصبری کا مُظَاہَرہ کر بیٹھتا ہے مگر مؤمِنِ کامِل جو دنیا کی فانی آسائشوں کے دھوکے میں کھو کر آخرت کی یاد سے غافِل نہیں ہوتا، جس کا مقصد دُنیا اور اس کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونا نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا وخوشنودی کا حُصُول ہوتا ہے، اس کی نظر میں ان مَصَائِب ومشکلات کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی، وہ ہر مصیبت اور پریشانی کا خنداں پیشانی کے ساتھ اِسْتِقبال کرتا ہے اور صبر واستقامت کے سہارے ہر آزمائش میں پورا اُترتا ہے۔ یاد رکھئے! ہمارا پیارا دینِ اسلام ہمیں اسی بات کی تعلیم دیتا ہے اور یہی ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل رہا ہے۔
مدینہ میں آفتابِ رسالت کی تجلیاں
اُس وَقْت کی بات ہے جب سرزمینِ مدینہ آفتابِ رسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نُورانی تجلیوں سے مُنَوَّر ہونا شروع ہوئی، نور والے آقا، دو عالَم کے داتا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسمِ نورانی کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہوئے اور اس کے در ودیوار آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور کی شعاعوں سے جگمگانے لگے۔ یہ نورانی تجلیاں صِرْف ظاہِر