تَعَیُّن ہونا ضروری ہے۔
{3}میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:کام کی تین حالتیں ہیں(۱) سُست (۲) معتدل ( یعنی درمِیانہ اور ) (۳)نہایت تیز۔اگر مزدوری میں ( کم از کم معتدل بھی نہیں محض) سستی کے ساتھ کام کرتا ہے گنہگار ہے اور اِس پر پوری مزدوری لینی حرام۔اُتنے کام (یعنی جتنا اس نے کیا ہے)کے لائق(مطابِق) جتنی اُجرت ہے لے ،اس سے جو کچھ زیادہ ملا مستاجر (یعنی جس کے ساتھ ملازمت کامعاہدہ کیا ہے اُس) کو واپس دے۔
(فتاوٰی رضویہ ج ۱۹ ص ۴۰۷ )
{4}کبھی کام میں سست پڑ گیا تو غور کرے کہ’’ مُعتدل ‘‘ یعنی درمِیانہ انداز میں کتنا کام کیا جاسکتاہے مَثَلاً کمپیوٹر آپریٹر ہے اور روز کی 100روپیہ اُجرت ملتی ہے، درمیانہ اندازمیں کام کرنے میں روزانہ 100 سطریں کمپوز کر لیتا ہے مگر آج محض سستی یاغیر ضروری باتیں کرنے کے باعِث 90سطریں تیّار ہوئیں تو 10سطروں کی کمی کے 10 روپے کٹوتی کروا لے کہ یہ 10روپے لینا حرام ہے، اگر کٹوتی نہ کروائی تو گنہگار اور نارِ جہنَّم کا حقدار ہے۔
{5}چاہے گورنمنٹ کا ادارہ ہو یا پرائیویٹ ملازِم اگر ڈیوٹی پر آنے کے معاملے میں عُرف سے ہٹ کر قصداً تاخیر کریگا یا جلدی چلا جائے گا یا چُھٹّیاں کرے گا تو اس نے معاہدے کی قَصْداً خلاف ورزی کا گناہ توکیاہی کیا اور ان صورتوں میں پوری