لقمۂ حلال کی فضیلت
ہمیں ہمیشہ حلال روزی کمانا، کھانا اورکھلانا چاہئے لقمۂ حلال کی تو کیا ہی بات ہے چنانچِہدعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ فیضانِ سنَّت‘‘جلد اوّل صَفْحَہ 179 پر ہے : حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمد غزالیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی اِحْیاءُ الْعُلُوم کی دوسری جِلد میں ایک بُزُرگرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا قَول نَقْل کرتے ہیں کہ مسلمان جب حَلال کھانے کا پہلا لُقْمہ کھاتا ہے ، اُس کے پہلے کے گُناہ مُعاف کردئیے جاتے ہیں۔ اور جو شخص طَلَبِ حلال کیلئے رُسوائی کے مقام پر جاتا ہے اُس کے گناہ دَرَخت کے پتّوں کی طرح جَھڑتے ہیں۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۲ ص۱۱۶)
حرام روزی کے بارے میں 4فرامین مصطَفٰےصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
{1}ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان (بکھرے ہوئے) ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اُس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاکر یاربّ! یاربّ! کہتا ہے (دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو!۱؎ (یعنی اگرقبولِ دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو){2} لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ آدَمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیاہے، حلال سے یا حرام سے۲؎{3} جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے،
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینہ
۱؎ مسلم ص۵۰۶حدیث۶۵۔(۱۰۱۵)۲؎ بخاری ج۲ص۷حدیث۲۰۵۹