ہوتا ہے کہ وہ امام کی غیر حاضری میں نماز پڑھائے گا، ایسی صورت میں امام اُس کو اپنا نائب نہیں بنا سکتا کسی اور کو بنائے ۔ دوسرے کو نائب بنانے سے مُؤَذِّن یا انتظامیہ خوش نہ ہوں تو ضروری ہے کہ نائب کے تقررکے بجائے کٹوتی کروائے، البتّہ یہ صورت ہو سکتی ہے کہ مُؤَذِّن صاحب اور انتظامیہ سے مشاوَرت کے بعد کسی کا بطورنائب تقرر کرلے۔
{40} امام و مُؤَذِّن سالانہ کم و بیش ایک ہفتے کیلئے اپنے عزیزو اَقرِبا (اَق۔رِ۔با) سے ملنے بیرونِ شہر جا سکتے ہیں ان دنوں کی تنخواہ کے حقدار رہیں گے۔
{41} امام،مُؤَذِّن یا کسی بھی دکان وغیرہ کا ملازِم سخت بیمار ہو جائے یا اُس کے یہاں کوئی انتقال کر جائے تو اِن صورَتوں میں ہونے والی چُھٹّیوں میں وہاں کا عُرف دیکھا جائے گا اگر تنخواہ کاٹنے کا عُرف ( یعنی معمول) ہے تو کاٹ لی جائے ورنہ نہ کاٹی جائے۔
{42} امام یا مُؤَذِّن یا مدرِّس یا کسی ملازِم کا گھر دُور ہے ،’’ پیّاجام ہڑتال ‘‘کی وجہ سے سواری نہ ملی یا ہنگاموں کے صحیح خوف کے سبب چھٹی ہو گئی تو اگرپہلے سے طے ہو گیا تھا کہ ایسے مواقع پر تنخواہ نہیں کاٹی جائیگی یا وہاں کاعُرف (یعنی معمول)ہی ایسا ہو کہ ایسے مواقع پر کٹوتی نہیں ہوتی تو اس طرح کی چھٹی کی تنخواہ پائے گا۔ یادرہے! معمولی ہڑتا ل چھٹی کیلئے عذر نہیں ۔
{43}حج یاعمرے کی وجہ سے ہونے والی چُھٹّیوں کی تنخواہ کٹوانی ہو گی۔ (دیکھئے: فتاوٰی رضویہ