ظلم ہو گا،ایسے موقع پر ایک مہینا توکیا ایک گھنٹے کی بھی تنخواہ کاٹی(یازائد کرایہ وصول کیا) توگنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہو گا۔
{31}ملازم نے اگر مَرَض کی وجہ سے چھٹّی کر لی یاکام کم کیا تومُسْتاجر(یعنی جس سے اِجارہ کیا ہے اُس) کو تنخواہ میں سے کٹوتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر اِس کی صورت یہ ہے کہ جتنا کام کم کیا صرف اُتنی ہی کٹوتی کی جائے مَثَلاً 8گھنٹے کی ڈیوٹی تھی اور تین گھنٹے کام نہ کیا تو صرف تین گھنٹے کی اُجرت کاٹی جائے، پورے دن بلکہ آدھے دن کی اُجرت کاٹ لینا بھی ظلم ہے۔ ( تفصیل کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد19 صفحہ515 تا 516 دیکھ لیجئے )
{32}امام ومُؤَذِّن عُرف و عادت کی چُھٹّیوں کے علاوہ اگر غَیر حاضِری کریں تو تنخواہ میں کٹوتی کروا لیا کریں ۔ مَثَلاً امام کی تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہے تو مثَلاً 30 کے مہینے اپریل میں چُھٹّیاں کرنے پر فی نماز 20 روپے کٹوا لیں، اِسی طرح مُؤَذِّنصاحب بھی حساب لگا لیں۔( بلا عذر صحیح قصداً معاہدے کی خلاف ورزی کی اور چھٹیاں کرتا رہا تو کٹوتیاں کروانے کے باوجود گناہ ذمّے باقی رہیں گے ، لہٰذا سچی توبہ کرے اور اس طرح کی من مانی چھٹیوں سے باز رہے )
{33} امام و مُؤَذِّن ، خادمِ مسجِد اور (دینی و دُنیوی )ہرطرح کی ملازَمتوں میں عُرْف و عادت (یعنی جاری معمول) کے مطابِق کی جانے والی چُھٹّیوں میں تنخواہ کی کٹوتی نہیں کی جاسکتی، البتّہ عُرْف (رائج طریقے) سے ہٹ کر جو چُھٹّیاں کی جائیں اُن پر تنخواہ کاٹی جائے ۔