جلد 16صَفْحَہ 346پر ایک سُوال کے جواب میں لکھا ہے:عام رواج یہی ہے کہ کوئی مدّتِ اِجارہ مُعَیَّن(یعنی fix) نہیں کی جاتی کہ (مَثَلاً) سال بھر کیلئے تجھے امام کیا یا چھ مہینے کے لئے بلکہ صرف امامت اور اس کے مقابل ماہوار اتنا (مُشاہَرہ ۔ تنخواہ طے ) پانے کا بیان ہوتا ہے، تو (اس طرح کا) اجارہ صرف پہلے مہینے کیلئے صحیح ہوا اور ہرسِرِماہ (یعنی ہر مہینے کی ابتدا ہوتے ہی)اجیر ومستاجر ہر ایک کو دوسرے کے سامنے اس کے فَسْخ(یعنی منسوخ) کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔ ’’دُرِّمُختار ‘‘میں ہے : دُکان کرائے پر دی کہ ہر ماہ اِتنا کرایہ ہوگا توفَقَط ایک ماہ کے لئے اِجارہ صحیح ہوا ، باقی مہینوں میں بسبب جہالت کے(یعنی مُدَّت کاتعیُّن واضح نہ ہونے کی وجہ سے اجارہ) فاسدہے اور جب مہینا پورا ہوگیا تو دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی موجودگی میں اِجارہ فسخ (یعنی منسوخ) کرنے کا اختیار ہے کیونکہ عقدِ صَحیح ختم ہو گیا ۔(دُرِّمُختار ج ۹ ص ۸۴)
{24} مسلمان نے کافر کی خدمت گاری کی نوکری کی یہ مَنْع ہے بلکہ کسی ایسے کام پر کافر سے اجارہ نہ کرے جس میں مسلم کی ذلت ہو(کہ ایسا اجارہ جائز نہیں)۔ (عالمگیری ج۴ ص۴۳۵)عمومی طور پر یہ کام یعنی کافر کے پائوں دبانا، اُس کے بچوں کی گندگیاں اُٹھانا، گھریا دفتر کا جھاڑو پوچا کرنا ، گند کچرا اٹھانا،لیٹرین اورگندی نالیوں کی صفائی ، اُس کی گاڑی کی دُھلائی کرنا وغیرہ ذِلّت میں شامل ہے۔البتہ ایسی نوکری جس میں مسلمان کی ذلت نہ ہو وہ کافر کے یہاں جائزہے۔