وَسَلَّم اپنی کسی حاجَت کے سَبَب تشریف لے جاتے تو ہم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اَحادِیث کو دُہْرانا شروع کر دیتے ، پھر جب وہاں سے اُٹھتے تو یوں لگتا گویا وہ تمام کی تمام اَحادِیث ہمارے دِل (کی زمین)میں بو دی گئی ہیں ۔ (1)
زندگی ہو مری پروانے کی صُورَت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دوسرا طریقہ
میٹھے میٹھے اِسْلَامی بھائیو!زمانہ نبوی میں جہاں ہر بات کو حِفْظ کرنے کا اِہتِمام تھا، وہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ صِرف کتابت یعنی اَحْکامِ خُداوندی کو لکھ لینے کی اِجازَت عَطا فرمائی بلکہ خود اس کا اِہتِمام بھی فرمایا اور اس کی ترغیب دِلاتے ہوئے اِرشَاد فرمایا : قَیِّدُوا الْعِلْمَ بِالْكِتَابِ یعنی عِلْم کو لکھ کر قید کر لیا کرو ۔ چُنَانْچِہ اَمِیرُ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب بھی قرآنِ کریم کی کوئی آیَتِ مُبارَکہ نازِل ہوتی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاتِبِینِ وحی(یعنی وحی لکھنے والوں)کوبُلا کر اِرشَاد فرماتے : ان آیات کو فُلاں مضمون کی سورۃ میں رکھ دو، پھر جب کوئی اور سورۃ نازِل ہوتی تو فرماتے اسے فُلاں مضمون کی سورۃ میں رکھ دو ۔ (2)یعنی جب کوئی آیت نازِل ہوتی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرما دیتے کہ یہ آیت فُلاں سورۃ کی فُلاں آیت کے بعد رکھو ۔ اس طرح قرآنِ کریم
________________________________
1 - مسند ابی یعلٰی، یزید الرقاشی عن انس بن مالك، ۳ / ۳۱۵، حدیث : ۴۰۹۱
2 - مسند شھاب، ۱ / ۳۷۰، حدیث : ۶۳۷
3 - ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب و من سورة التوبة، ص۷۱۳، حدیث : ۳۰۸۶