حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے خوب عِلْمِ دین سیکھا، قرآنِ پاک اور اس کی تفسیر اور کثیر اَحادِیْثِ مُبارَکہ کو اپنی یادداشت میں مَحْفُوظ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آگے دوسروں تک پہنچانے کی بھی انتہائی کوشش کی اور ایسا وہ کیونکر نہ کرتے کہ انہیں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایسا کرنے کا حُکْم کچھ ان اَلْفَاظ میں اِرشَاد فرمایا تھا : بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَةً یعنی میری طرف سے پہنچا دو، اگرچہ ایک ہی آیت ہو ۔ مَشْہُور شارحِ حدیث، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیْثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : آیت کے لُغَوِی معنیٰ ہیں عَلامَت اور نشان ۔ اس لِـحَاظ سے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے مُعْجِزَات، اَحادیث، اَحکام، قرآنی آیات سب آیتیں ہیں ۔ اِصطِلاح میں قرآن کے اُس جملے کو آیت کہا جاتا ہے ، جس کا مُسْتَقِل نام نہ ہو ۔ نام والے مضمون کو سورۃ کہتے ہیں ۔ یہاں آیت سے لُغَوِی معنیٰ مُراد ہیں یعنی جسے کوئی مسئلہ یا حدیث یا قرآن شریف کی آیت یاد ہو وہ دوسرے کو پہنچا دے ۔ تبلیغ صِرف عُلَما پر فَرْض نہیں، ہر مسلمان بقدرِ عِلْم مُبَلِّغ ہے اور ہو سکتا ہے کہ آیت کے اِصْطِلَاحِی معنیٰ مُراد ہوں اور اس سے آیت کے اَلْفَاظ، معنیٰ، مَطْلَب، مسائل سب مُراد ہوں یعنی جسے ایک آیت حِفْظ ہو اس کے مُتَعَلِّق کچھ مَسَائِل مَعْلُوم ہوں لوگوں تک پہنچائے ۔ (1)چُنَانْچِہ اگر یہ دیکھنا ہو کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اپنے آقا ، مکی مَدَنی مصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرمان پر کس قَدْر عَمَل فرمایا تو اس کامنہ بولتا ثبوت ان مُقَدَّس ہستیوں سے مَرْوِی سینکڑوں نہیں ہزاروں اَحادِیثِ مُبارَکہ
________________________________
1 - بخاری، کتاب احادیث الانبیآء، باب ماذکر عن بنی اسرآئیل، ص۸۸۸، حدیث : ۳۴۶۱
2 - مراٰۃ المناجیح، ۱ / ۱۸۵