کی شرح میں فرماتے ہیں : ایک دن دریائے عَطا موجزن تھا لوگوں کو قوّتِ حافظہ تقسیم فرما رہے تھے ، فرمایا کوئی ہے جو اپنا کپڑا بچھائے ، ہم ایک دُعا پڑھتے ہیں، جب وہ دُعا خَتْم ہو جائے تو وہ یہی کپڑا اپنے سینے سے لگا لے ، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کا حافظہ بَہُت ہی قوی ہو جائے گا ۔ خَیال رہے کہ تھوڑی چیز ہاتھ پھیلا کر لی جاتی ہے مگر بڑے سخی کی بڑی عَطا چادَر پھیلا کر سمیٹی جاتی ہے ، یہاں چادَر پھیلانے کا حُکْم دیا گیا، مَعْلُوم ہوتا ہے عَطا بڑی ہے ۔ خَیال رہے کہ قوّتِ حافظہ اِنسان کی ایک صِفَت ہے ، جو قدرتی طور پر لوگوں کو عَطا ہوتی ہے ، کوئی قوی حافظے والا ہوتا ہے ، کوئی ضعیف حافظہ والا، اس حدیث سے مَعْلُوم ہوتا ہے کہ حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صِفاتِ انسانیہ بھی عَطا فرماتے ہیں بَحُکْمِ پروردگار ؎
مالک ہیں خزانۂ قُدْرَت کے جو جس کو چاہیں دے ڈالیں
دی خُلد جنابِ ربیعہ کو بگڑی لاکھوں کی بنائی ہے (1)
اس سے مَعْلُوم ہو رہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ)کوئی دُنْیَاوِی بات بھُولیں تو بھُولیں، میرا کلام كبھی نہ بُھولیں گے ۔ تھوڑا آگے مزید اِرشَاد فرماتے ہیں : خَیال رہے کہ حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کا ہر عُضْو ہر ادا اللہ کے خزانوں کا دروازہ ہے ، کسی کو دم کر کے نعمتیں بخش دیں، کسی کو نَظَر سے ، کسی کو ہاتھ سے ، کسی کو زبان شریف سے ، یوں ہی ہر
________________________________
1 - حضرت سَیِّدُنا ربیعہ بن کعب اسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وہ خوش بخت صحابی ہیں، جن کی خِدْمَت گزاری سے خوش ہو کر اللہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک بار اِرشَاد فرمایا : اے ربیعہ مانگ کیا مانگتا ہے ؟ عَرْض کی : جنَّت میں بھی آپ کی خِدْمَت میں رہنا چاہتا ہوں ۔ اِرشَاد فرمایا : اس کے علاوہ کچھ اور؟عَرْض کی : نہیں ۔ اِرشَاد فرمایا : پھر کَثْرَت سے سجدے کرتے رہو ۔ (مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل السجود و الحث عليه، ص ۱۸۴، حديث : ۴۸۹)