کرنا، بدنگاہی کرنا، عورَتوں کا مَردوں کی اور مردوں کا عورَتوں کی مُشابَہَت(یعنی نقّالی) کرنا، بے پردگی، غُرُور، تکبُّر، حَسَد، رِیا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بُغْض وکینہ رکھنا، شَماتَت (یعنی کسی مسلمان کو مرض، تکلیف یا نقصان پہنچنے پر خوش ہونا)، غصّہ آجانے پر شَریعَت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حِرْص، حُبِّ جاہ، بُخْل، خود پسندی وغیرہ مُعَامَلات ہمارے مُعاشَرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں ۔ (1)
یاشہیدِ کربلا فریاد ہے نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے
دین کی خدمت کا جذبہ دیجئے صدقہ نانا جان کا فریاد ہے
سنّتوں کی ہر طرف آئے بہار صدقہ میرے غوث کا فریاد ہے (2)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُتَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دورِ جدید اور حفاظت و اشاعَتِ علم
میٹھے میٹھے اِسْلَامی بھائیو!یہ دور بے عملی کا ہی نہیں، اس میں بے علمی بھی عام ہے ، عِلْم و عَمَل کے پیکر، جَلِیْلُ القَدْر عُلَمائے کرام اس دنیائے فانی سے پردہ فرما رہے ہیں اور دنیا آہستہ آہستہ ان کے وُجُود سے خالی ہوتی جا رہی ہے ، مگر افسوس! ہماری اَکْثَرِیَّت اس بات سے غافِل ہے ، حالانکہ اسی صُورَتِ حال کے مُتَعَلِّق فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے : علم سیکھنا تم پر پر لازِم ہے ، اس سے پہلے کہ اسے اُٹھا لیا جائے ۔ (3)اور عِلْم اُٹھا لئے جانے
________________________________
1 - نیکی کی دعوت، ص ۱۳۱ بتصرف
2 - وسائِلِ بخشش (مرمّم)، ص۵۸۶ تا ۵۸۸ ملتقطاً
3 - ابن ماجه، المقدمة، باب فضل العلماء والحث…الخ، ص۵۰، حدیث : ۲۲۸