غوثِ پاک کے حالات |
اَلْحَمْدُ لَکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاسیِّدَالْمُرْسَلِیْنَ
اللہ عزوجل کے محبوب بندوں رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت وعقیدت کاتعلق قائم رکھتے ہوئے ان کے نقش قدم پرچلنایقینابہت بڑی سعادت کا حامل ہے کیونکہ یہ وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں کہ جن پراللہ عزوجل نے اپنے انعام واکرام کی بارشیں نازل فرماتے ہوئے انہیں قرآن پاک میں اپنے''انعام یافتہ بندے''قراردیا۔چنانچہ سورۃالنساء میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔
وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾
ترجمہ کنزالایمان:اورجواللہ اوراس کے رسول کاحکم مانے تواسے ان کا ساتھ ملے گاجن پراللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اورصدیق اورشہیداورنیک لوگ یہ کیاہی اچھے ساتھی ہیں۔(پ۵،سورۃالنساء،۶۹) ایک دوروہ بھی تھاکہ جب بزرگان دین کی صحبت اختیارکرنالازم اوران کی خدمت کوسعادتِ عظمیٰ تصورکیاجاتاتھا۔لیکن آہستہ آہستہ اسلام دشمن طاقتوں اورگستاخانِ محبوبانِ ربُ العلی کی مذموم سازشوں کے نتیجے میں اسلاف کرام رحمہم اللہ سے اس پاکیزہ تعلق کی مضبوطی میں کمی واقع ہونے لگی اور طرح طرح کی خُرافات زبان زد عام ہونے لگیں اور فتنے جڑ پکڑنے لگے ۔ الحمدللہ عزوجل مختلف علماء کرام دامت فیوضہم نے ان سازشوں کے نتیجے میں بزرگانِ دین سے بڑھتی ہوئی بے رغبتی کااندازہ فرماکراپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے محبوبانِ بارگاہِ الٰہی عزوجل سے عوام کاتعلق دوبارہ مضبوط کرنے کے لئے تحریری وتقریری اَقدام کئے۔ علمائے کرام دامت فیوضہم کی ان کوششوں کی برکت سے دشمنان اسلام کی سازشیں دم توڑنے لگیں اور عقیدتوں کا گلستان پھر سے ہرا بھرا ہوگیا۔اس سلسلے میں شیخِ طریقت، امیرِاہلِسنّت،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانامحمدالیاس