انوکھی ندامت
’’ مُکاشَفۃُ الْقُلُوب‘‘ میں ہے: حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابوعلی دَقّاق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّزَّاق فرماتے ہیں : ایک بَہُت بڑے ولیُّ اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ سخت بیمار تھے ،میں عِیادت کے لیے حاضِر ہوا، اِردگرد مُعتَقِدین کا ہُجُوم تھا، وہ بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ رو رہے تھے ۔میں نے عرض کی: اے شیخ! کیا دنیا چُھوٹنے پر رو رہے ہیں ؟ فرمایا: نہیں ، بلکہ نَمازیں قضا ہونے پر رَو رہا ہوں۔ میں نے عرض کی: حُضُور! آپ کی نمازیں کیونکر قضا ہوگئیں ؟ فرمایا: میں نے جب بھی سَجدہ کیا تو غفلت کے ساتھ اور جب سَجدہ سے سر اٹھایا تو غفلت کے ساتھ اور اب غفلت ہی میں موت سے ہم آغوش ہورہا ہوں، پھر ایک آہِ سَرد دلِ پُردرد سے کھینچ کر چارعَرَبی اَشعار پڑھے جن کا ترجَمہ یہ ہے:{1} میں نے اپنے حَشر ، قِیامت کے دن اورقبر میں اپنے رُخسار کے پڑا ہونے کے بارے میں غور کیا {2} اِتنی عزّت و رِفعت کے بعد میں اکیلا پڑا ہوں گا اور اپنے جُرم کی بِناء پر رَہن (یعنی گِروی)ہوں گا اورخا ک ہی میرا تکیہ ہوگی{3} میں نے اپنے حساب کی طَوالت اور نامۂ اعمال دیئے جانے کے وَقْت کی رُسوائی کے بارے میں بھی سوچا {4} مگر اے مجھے پیدا کرنے والے اور مجھے پالنے والے! مجھے تجھ سے رَحمت کی اُمّید ہے ،تُو ہی میری خطاؤں کو بخشنے والا ہے۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۲۲)
روتا ہوا داخِلِ جہنَّم ہوگا
میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو! اِس حِکایت میں کس قَدَر عبر ت ہے۔ ذرا ان اللہ والوں