مرجائیں گے تواُن پر توکل کرنے والابھی برباد ہوجائے گا۔ توکل کی اصل یہ ہے کہ بندہ اِس بات پر یقین رکھے کہ تمام اُمور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے صادر ہوتے ہیں ، اُس کے علاوہ کوئی اور اُنہیں ایجاد نہیں کرسکتا۔ اِس لیے اپنی تمام حاجات اُسی کے سِپُرد کی جائیں ۔ یہ عقیدہ رکھنا فرض اور اِیمان کی شرط ہے۔ ‘‘ (1)
(4) اللہ عَزَّ وَجَلَّہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے:
وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (۱۱) (پ۱۳، ابراھیم:۱۱) ترجمہ ٔ کنزالایمان:اورمسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔
تفسیر رُوح البیان میں ہے : ’’ یعنی مسلمانوں پرلازم ہے کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کہ علاوہ کسی پر توکل نہ کریں ۔ جب دُشمن مخالفت و دُشمنی کریں توصبر کریں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ہی بھروسہ کریں ۔ ‘‘ (2)
(5) مشورہ کرنا توکل کے خلاف نہیں
ارشاد باری تعالی ہے:
فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ- (پ۴، آل عمران:۱۵۹) ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔
تفسیرِ خازن میں ہے: ’’ اور جب تم کسی کام کاپختہ اِرادہ کرلو توپھر تمام معاملات میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مدد چاہو اور اُسی پر بھروسہ کرو، اُس کے سوا کسی پر اِعتماد نہ کرو۔ بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی مدد فرمانے والا، حفاظت کرنے والا اور سیدھی راہ پر چلانے والا ہے۔ اِس آیت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات میں اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کسی پر اِعتماد نہ کرے۔ہاں ! مشورہ کرنا توکل کے خلاف نہیں ۔ ‘‘ (3)
________________________________
1 - تفسیر روح البیان، پ۱۹، الفرقان ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۶ / ۲۳۳۔
2 - تفسیر روح البیان، پ۱۳، ابراھیم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۴۰۳۔
3 - تفسیر خازن،پ۴،آل عمران،تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۳۱۶۔