Brailvi Books

فیضانِ ریاض الصالحین(جلد :2)
12 - 662
 جنگ  کا وعدہ کر چکا ہوں لیکن  میں اس سال جنگ  نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں ،  لیکن اگر ہم واپس چلے گئے اور محمد  (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) جنگ کے ‏لیے بدر پہنچ گئے تو اُن کی جرأت بڑھ جائے گی۔تم ایسا کرو کہ کسی طرح مسلمانوں کو جنگ سے روک دو،  میں اِس کے عوض تمہیں دس10اُونٹ انعام میں دوں گا۔ ‘‘  وہ راضی ہو گیا۔ چنانچہ وہ مدینے پہنچا تو وہاں مسلمانوں کو جنگ کی تیاریوں میں مصروف دیکھا تو اُن سے ملا اور اُنہیں خوف زدہ کرتے ہوئے کہنے لگا : ’’  اگر وہ  (یعنی کفار مکہ) تمہارے پاس آجائیں تو تمہارے اکثر لوگوں کو قتل کر دیں گے اور اگر تم اُن کی طرف گئے تو تم میں سے ایک بھی بچ کر نہ آئے گا۔ ‘‘ 
مسلمانوں کو اُس کی یہ بات کھٹکی۔جب سید عالَم نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:  ’’ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم! میں ضرور جاؤں گا، چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ ‘‘  پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ستّر 70سواروں کے ساتھ روانہ ہوئے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو مشرکین میں سےکوئی بھی نہ ملا۔مسلمانوں کے پاس مالِ تجارت تھا اور موضع بدر میں ہر سال آٹھ 8دن  بازار لگتا تھا،  وہاں مسلمانوں نے تجارت کی اور خوب نفع کماکربدر سےواپس مدینہ منورہ پہنچے۔ ‘‘  (1) 
 (3) ہمیشہ ربّ پر بھروسہ کرو
اللہرب العزّت اِرشاد فرماتا ہے:
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ  (پ۱۹، الفرقان :۵۸) 		ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا۔
تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت ہے: ’’ یعنی لوگوں کے شر سے بچنے اور اُن کے اِحسانات سے بے نیاز ہونے کے ‏لیے اُس ربّ پر بھروسہ کرو جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اُسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ وہی اِس بات کا حقیقی مستحق ہے کہ اُس پر توکل کیا جائے کیونکہ اُس کے علاوہ باقی سب کوموت آنی ہے،  جب وہ


________________________________
1 -    تفسیرکبیر،پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ:  ۱۷۳، ۳‏ / ۴۳۲ ملخصا۔