اُنہوں نے دیکھا کہ اُس مِیْعاد پر لشکر آ گئے تو کہا: یہ ہے وہ جو ہمیں اللہ اور اُس کے رسول نے وعدہ دیا تھا ۔ یعنی جو اُس کے وعدے ہیں ، سب سچے ہیں ، سب یقینا ًواقع ہوں گے ، ہماری مدد بھی ہو گی، ہمیں غلبہ بھی دیا جائے گا اور مکّہ مکرّمہ اور روم و فارس بھی فتح ہوں گے۔ ‘‘ (1)
(2) ربّ تعالی پر بھروسہ کامیابی کی ضمانت ہے
ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا ﳓ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ (۱۷۳) فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌۙ-وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ (۱۷۴) (پ۴، آل عمران : ۱۷۳۔۱۷۴)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لیے جتھاجوڑا تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زائد ہوااور بولے اللہ ہم کو بس ہے اور کیا اچھا کارساز توپلٹے اللہ کے احسان اور فضل سے کہ انہیں کوئی برائی نہ پہنچی اور اللہ کی خوشی پرچلے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تفسیرِ کبیر میں ہے: ’’ یہ آیت جنگِ بدر کے متعلق نازل ہوئی، حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ ( اسلام لانے سے پہلے) جب سردارِ مکہ ابوسُفیان نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف جانے کااِرادہ کیا تو حضور سید عالَم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے پکار کر کہا: ’’ اگلےسال تم سے مقامِ بدر میں جنگ ہوگی۔ ‘‘ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے فرمایا: ’’ اِن سے کہہ دو :اِنْ شَآءَ اللّٰہ ہماری تم سے جنگ ہو گی۔ ‘‘
پھرجب مقررہ وقت آیا اور ابوسفیان مکہ مکرمہ سے لشکر لے کر جنگ کے لیے روانہ ہوا تو اللہ تعالٰی نے ابو سفیان کے دل میں خوف ڈال دیا اور اس نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو اسے نُعَیْم بِنْ مَسْعوداَشْجَعِی ملا۔ ابو سفیان نے اس سے کہا: ’’ میں مقامِ بدر میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے
________________________________
1 - خزائن العرفان، پ۲۱، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۲۲۔