فیضانِ زکاۃ |
سرکاری یا نجی اداروں کے ملازمین کو سال کے آخر پرکچھ مخصوص رقم تنخواہ کے علاوہ بھی دی جاتی ہے جسے بونس کہتے ہے ۔یہ ایک طرح کا انعام ہے جس کی شرعی حیثیت مالِ موہوب (یعنی ہبہ کئے ہوئے مال) کی ہے چنانچہ اس پر قبضہ کے بغیر ملکیت ثابت نہیں ہوگی ،ملازم بعدِ قبضہ ہی اس کا مالک ہوگا پھر اگر وہ تنہا یا دیگر اموالِ زکوٰۃ سے مل کر نصاب کو پہنچے تب اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔(جدید مسائلِ زکوٰۃ،ص۴)
بینک میں جمع کروائی گئی رقم پر زکوٰۃ
بینک میں رقم اگرچہ امانت کے طور پر رکھوائی جاتی ہے مگر ہمارے عرف میں قرض شمار ہوتی ہے کیونکہ دینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رقم بینک انتظامیہ کاروبار وغیرہ میں لگائے گی۔چنانچہ اس رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی مگر ادا اس وقت کی جائے گی جب نصاب کا کم از کم پانچواں حصہ وصول ہوجائے ۔
( ماخوذ از فتاوٰ ی امجدیہ،کتاب الزکوٰۃ،ج۱، ص۳۶۸)
فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ الھادیفتاویٰ امجدیہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : آسانی اسی میں ہے کہ جتنے روپے جمع ہوں ،سب کی زکوٰۃ سال بسال دیتا جائے ۔ معلوم نہیں کب موت آئے اور وارثین' زکوٰۃ دیں نہ دیں ،شیطان کو بہکاتے دیر نہیں لگتی ۔