جس کا کل مال حرام ہو ، اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی کیونکہ وہ اس مال کا مالک ہی نہیں ہے ، درمختار میں ہے :''اگر کل مال حرام ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ۔'' (الدرالمختار،کتاب الزکوٰۃ،ج۳،ص۲۵۹)اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنّت،مولیناالشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں : ''چالیسواں حصہ دینے سے وہ مال کیا پاک ہو سکتا ہے جس کے باقی انتالیس حصے بھی ناپاک ہیں۔''
(فتاوی رضویہ ،ج۱۹ ،ص۶۵۶)
ایسے شخص پر لازم ہے کہ توبہ کرے اورمالِ حرام سے نجات حاصل کرے ۔
مالِ حرام سے نجات کا طریقہ
شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے ''پُراَسرار بھکاری '' کے صفحہ 27 پر لکھتے ہیں: حرام مال کی دو صورَتیں ہیں: (۱) ایک وہ حرام مال جو چوری، رشوت، غصب اور انہیں جیسے دیگر ذرائِع سے مِلاہو اِس کو حاصِل کرنے والا اِس کااصلاً یعنی بالکل مالِک ہی نہیں بنتا اور اِس مال کے لئے شَرعاً فرض ہے کہ جس کا ہے اُسی کو لَوٹا دیا جائے وہ نہ رہا ہو تو وارِثوں کو دے اور ان کا بھی پتا نہ چلے تو بِلا نیّتِ ثواب فقیر پر خیرات کر دے (۲) دوسرا وہ حرام مال جس میں قبضہ کر لینے سے مِلکِ خبیث حاصِل ہو جاتی ہے اور یہ وہ مال ہے جو کسی عقد فاسد کے ذَرِیعہ حاصِل ہوا ہو جیسے سُودیا