آپ کو کبھی کسی طالب علم کو جھڑکتے ، گالی دیتے اورمارتے نہ دیکھا گیا اس کے برعکس زبانی تنبیہ کا ایسا انداز اختیار فرماتے جس سے طالب علم خود بخود اصلاح کی جانب مائل ہوجاتا۔ اس خوبصورت اندازِاصلاح کو بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: دورِ طالب علمی کے ایک ساتھی کو اسباق سے فارغ ہوکر بازار میں گھومنے پھرنے کی عادت تھی ایک دن عصر کے بعدسیر سپاٹاکرکے لوٹے تو حضور محدثِ اعظم پاکستان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے انہیں اپنے قریب بلوایا اور فرمایا: بتائیے ! فلاں بازار کی کتنی گلیاں ہیں یا فلاں گلی میں کل کتنی اینٹیں ہیں؟ بس آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اس اشارے پر ہمارے اس ساتھی نے اپنی عادت ترک کردی ۔ (1)
سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! کتنا پیارا اور سادہ انداز ہے کہ سزا دینے کی ضرورت پڑی نہ سخت جملے کہنے پڑے اورطالب علم کی اصلاح ہوگئی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ حضور محدثِ اعظم پاکستان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا انداز شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذات بابرکت میں نمایا ں نظر آتا ہے آپدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ طلبہ پر نہایت شفیق اورمہربان ہیں، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی وقتاً فوقتاًجامعات و مدارس المدینہ کے اساتذہ و ناظمین کی تربیت فرماتے رہتے ہیں کہ طلبہ کو جسمانی سزا نہ دی جائے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ
________________________________
1 - حیات محدث اعظم، ص۵۳ملخصاً