لکھ لىتے۔ جوتا پہننے، اتارنے، مسجد مىں داخل ہونے اور مسجد سے نکلنے کے آداب کا خود بڑا لحاظ رکھتے اور دوسروں کو بھى ان کى پابندى کى تاکىد فرماتے۔ گفتگو مىں اکثر نعم (جی ہاں) اور طَىب (بہت خوب) استعمال کرتے، جس سے کلام کا لطف دوبالا ہوجاتا۔ سوارى پر سوار ہوتےوقت اللہ اَکۡبَر کہتے اور دعائے ماثورہ پڑھتے اور جب اترتے تو سُبْحٰنَ اللہ کہتے ، دینی اجتماعات میں شرکت کے لئے دوسرے شہر تشریف لے جاتے تووہاں مزارات اولیا پر حاضرى دیاکرتے جبکہ بعض مزارات کى طرف بطور ِ خاص زىارت کى نىت سے بھی سفر فرماتےاوراخراجات خود اٹھاتے اگر کوئی پیش کرنا بھی چاہتا تو قبول نہ فرماتے نیز حاضری کے وقت باادب کھڑے رہتے اور ایصال ِثواب کرتے، صاحبِ مزار سے اسى طرح عرض و معروض اور گفتگو ہوتى جس طرح کسى زندہ انسان سے ہوتی ۔ طلبہ اور علماملاقات کے لئے حاضر ہوتے تو انہیں بڑى فراخ دستى سے تحائف عطا فرماتے۔ (1)
خود داری
برِصغىر پاک و ہند کے دور دراز علاقوں مىں بیانات کے لىے تشرىف لے جاناہوتا تو یہ نہیں سوچتے کہ وہاں جانا کتنا مشکل ہےبلکہ ىہى مدنظررکھتے کہ وہاں جانا کتنا اہم ہےاور نہ یہ کہتے کہ مىرے لىےسوارى کا بندوبست کردو ىا زادِراہ دے
________________________________
1 - تذکرہ محدث اعظم پاکستان، ۲ / ۲۸۲ تا ۲۸۳ملخصاًوغیرہ