سانچے میں اس طرح ڈھالا تھا کہ آپ کے اخلاق وکردار تربیتی دروس کی حیثیت اختیار کر گئے تھے، آپ کی جرأت وبہادری، عاجزی وسادگی، ہمت ومردانگی، بلند حوصلہ واستقامت،دیانت وامانت، ذہانت وفطانت اور انابت وخشیت (توبہ وخوف خدا)کی مثالیں تاریخ کے صفحات پر اس طرح چمک رہی ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں ۔
شادی بیاہ کے معاشرتی معاملات، اَولاد کی مدنی تربیت، اہل خانہ کے حقوق کی پاسداری، عزیزوں ودیگر رفقاء کے ساتھ ملن ساری، عزت داروں کی عزت کی حفاظت، احساس ذمہ داری اور رعایا کی خبر گیری، غلاموں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کی نگہداشت، غیر مسلم رعایا کے حقوق کی ضمانت، خواتین کے مسائل ومشکلات سے باخبری اور ان تمام مسائل کے حل میں مدد و تعاون، بچوں میں گھل مل کراپنے ساتھ مانوس کرلینا، بیت المال کا بہترین نظام، ریاست میں عدل ومساوات کا قیام، ظلم وتشدد کی روک تھام، ظالموں ولٹیروں کے احتساب کا اہتمام، بے زبان جانوروں پر بھی حد درجہ مہربان، قرآن وسنت کی تعلیمات اور ان کی ترویج کا بہترین انتظام، سختی کے وقت ایسی شدت کہ دریاؤں کے دل دہل جائیں ، ہلتی زمین ساکن ہوجائے، شیطان اپنا راستہ تبدیل کردے اورپہاڑ کانپ اٹھیں مگر نرمی کے وقت ایسی نرمی کہ ریشم بھی شرمسار ہوجائے، کمزوروں اور بیکسوں کے سامنے حوصلہ پیدا کرنے والی عاجزی وانکساری، ظلم وجفا کے مقابلے پر صلابت (پختگی)، اہل علم وتقویٰ کی عزت وتوقیر، اہل شروفساد کی بیخ کنی، مشورہ دینے میں جرأت وصراحت، اِجتماعی فیصلہ قبول کرنے میں کامل وسعت، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے ایسی قوی امید کہ اپنے ہی نفس کو جنت کی نوید، مگر اسی ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے قہر وجلال وعذاب سے ایسے لزاں وترساں کہ اپنے ہی نفس کو جہنم کی وعید، شہری ،ملکی اور بین الاقوامی قانون سازی کے بیک وقت ماہر واستاذ۔ الغرض ہرموضوع پر ’’سیرت فاروق اعظم ‘‘ایک حسین مرقع ہے۔
آپ کی ذات مبارکہ میں بھی انسانی خواہشات موجود تھیں مگر آپ کی عظمت یہ تھی کہ نہ تو بھوک کی صورت میں کوئی ناپسندیدہ فعل صادر ہوتا نہ خواہشات کی تکمیل میں جلدی فرماتے، غصے میں بھی کبھی خوف خدا سے عاری نہ ہوتے ، خوشی میں کبھی یادِ خدا سے غافل نہ پائے گئے ۔خلیفہ کی حیثیت سے آپ نے اپنے عدل وانصاف، زہد وتقویٰ، مردم شناسی ، تواضع ، سادگی، ارباب کمال کی قدردانی، خیر خواہی خلق، اصابت رائےسے مجاہدین اور عامۃ المسلمین کی مُحَیِّرُ