اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
گفتار وکردار کے حقیقی غازی۔۔۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے رُخِ روشن سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا، آپ کی رفاقت وصحبت کا لازوال شرف حاصل کیا، دین حق کو پھیلانے ، اسلام کو سربلند کرنے کےلیے ان کے عظیم الشان کارنامے قوت ایمانی کے ایسے روشن چراغ ہیں جو قیامت تک آنے والے انسانوں کو کا میابی کا سیدھا راستہ دکھاتے رہیں گے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِن حقیقی عاشقوں نے راہِ حق میں جو مصائب وآلام برداشت کیے انہیں پڑھ کر جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، انہوں نے دین متین کی سربلندی کے لیے ہر میدان میں ایسی بے مثال قربانیاں دیں کہ اُن کا اجتماعی وانفرادی کردار مسلمانوں کے لیے منارۂ نور بن گیا۔ شرف صحابیت تو تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں مشترک تھا، مگر اُن کے مراتب میں فرق ہے، یہ فرق اُن کے زمانۂ قبولِ اِسلام، بارگاہِ نبوی میں تقرب اور بعض دوسرے خصائل وفضائل کی بنا پر ہے، سیِّدُنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سب پر فضیلت عطا فرمائی اور خود سیِّدُنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنے وصال کے وقت سیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو خلیفہ منتخب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’الٰہی میں نے تیری مخلوق پر روئے زمین کے سب سے بہتر انسان کو خلیفہ بنایا۔‘‘
سیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ مرادِ رسول تھے، آپ کا قلب انوارِ الٰہی سے روشن تھا، شمع رسالت سے روشنی پانے کے بعد وہ خود بھی منبع نور وہدایت (روشنی وہدایت کا سرچشمہ)بن گئے تھے، آپ کی بصیرت ودانش جہاں عقل وخرد کو شادابی اور تازگی بخشتی تھی، وہیں آپ کی فہم و فراست ان واقعات و حقائق کا بھی ادراک کرلیتی تھی جو مستقبل کے پردوں میں چھپے ہوتے تھے، سچ اور جھوٹ کی پہچان کرنے میں مہارت تامہ رکھتے تھے، آپ نے اپنی ذات کو عمل کے