مارتا ۔ آہ ! میرا لختِ جگر نظر کانور اور دل کا سُرور بننے کے بجائے میرے جگر کاناسُور بن گیا۔ کئی بار پولیس اُٹھا کے لے گئی، میں جُوں تُوں کر کے اُس کو چُھڑوا کر لاتی، کئی مقَدَّمے اُس پر قائم تھے۔ آخِر کار کسی مقدَّمے میں اُس کو سزا سنائی گئی اور وہجَیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ تقریباً آٹھ ماہ کے بعد جب وہ ضَمانت پر رِہا ہو کر گھر آیا تویہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ آیا یہ خواب ہے یا حقیقت ! بات بات پر مجھے گالیوں سے نوازنے اور مار دھاڑ کرنے والا بد مزاج بیٹا آج میرے قدموں میں گر کر رو رو کر مجھ سے مُعافیاں مانگے جا رہا ہے۔
اتنے میں اذانِ مغرِب کی صدا سے فضا گونج اٹھی اور وہ نَماز پڑھنے کیلئے جانِب مسجِد روانہ ہو گیا۔ اس کے چہرے پر تقدُّس کا نُور جھلک رہا تھا اور انداز میں بھی نُمایاں تبدیلی تھی ،کل تک گالیاں بکنے والا نوجوان آج بات بات پر سبحٰنَ اللہ، اَلحَمْدُ لِلّٰہ ، ماشاءَ اللہ اور اِن شاءَ اللہ کہے جا رہا تھا ، اُس کی زَبان ذکرو دُرود سے تر تھی، عشاء کی نَماز با جماعت ادا کرنے کے بعد مسجِد سے واپَس آ کر وہ جلد ہی لیٹ گیا، میں بھی سو گئی ۔ رات تقریباً دو بجے جب میری آنکھ کُھلی تو قریبی چارپائی پر سویا ہوا بیٹا