فرماتا ہے تو اُسے’’ چُن‘‘ لیتا ہے۔عرض کی گئی:’’چُننے ‘‘سے کیا مُراد ہے؟ارشاد فرمایا: ’’اُس کے لئے نہ اَہْل وعِیال(یعنی بال بچّے ۔ گھر کے افراد) چھوڑتا ہے نہ مال۔‘‘(اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۷۸)
وہ عشقِ حقیقی کی لذّت نہیں پا سکتا
جو رنج و مُصیبت سے دوچار نہیں ہوتا (وسائل بخشش (مُرمم) ص ۱۶۴)
اُس کے سر کے نیچے پتَّھر کا تکیہ تھا(حکایت)
پیارے پیارے غریبو! سچ پوچھو تو غربت بھی بَہُت بڑی نعمت ہے جب کہ صَبْر و رضا کی سعادت بھی ساتھ ملے کیوں کہ غریب ومسکین مگر صابِر و شاکر بندے پر اللہربُّ العزّت کی کامِل(یعنی پوری) نظرِ رحمت ہوتی ہے۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا موسٰی کَلِیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو پتّھرکوتکیہ بنائے ، چادر اوڑھے، زمین پر سورہا تھا،اُس کا چِہرہ اور داڑھی گَرد آلود تھے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے بارگاہِ ربُّ الانام عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:’’یا اللہ عَزَّوَجَلَّ!تیرا یہ بندہ دنیا میں ضائِع ہو گیا ہے ۔‘‘ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:’’اے موسٰی! کیا آپ نہیں جانتے کہ جب میں اپنے بندے کی طرف کامِل (یعنی پورے)طور پر نظرِ رَحمت کرتا ہوں تو دنیا کو اُس سے مکمَّل طور پر دور کردیتا ہوں ۔‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ ص ۵۷۵)
فقر آقا کی مَحَبَّت کی سوغات ہے(حکایت)
حضر ت ِسیِّدُنا عبد اللّٰہ بن مُغَفَّل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فر ماتے ہیں کہ ایک شخص نے