حج کرتے ہیں اور ہمیں اس کی اِستِطاعت (یعنی طاقت و قدرت ) نہیں ، وہعمرہ کرتے ہیں اور ہم اس پر قادِر نہیں ، وہ بیمار ہوتے ہیں تو اپنا زائد مال صَدَقہ کر کے آخِرت کے لئے جمع کر لیتے ہیں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میری طرف سے فُقَرا کو پیغام دو کہ ان میں سے جو(اپنی غُربت پر)صَبْر کرے اور ثواب کی امّید رکھے اُسے تین ایسی باتیں ملیں گی جو مال داروں کو حاصل نہیں :{۱} جنّت میں ایسے بالاخانے(یعنی بلند محلّات) ہیں جن کی طرف اہلِ جنّت ایسے دیکھیں گے جیسے دنیا والے آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہیں ، ان میں صرف فَقْر(یعنی غُربت) اختیار کرنے والے نبی ، شہید فقیر اور فقیر مومِن داخِل ہوں گے{۲} فُقَرا مال داروں سے قِیامت کے آدھے دن کی مقدار یعنی 500سال پہلے جنّت میں داخِل ہوں گے{۳} مال دار شخص سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبر کہے اور یِہی کلمات (کَ ۔ لِ۔ مات)فقیربھی ادا کرے تو فقیر کے برابر ثواب مالدارنہیں پا سکتا ، اگر چِہ وہ 10ہزار درہم (بھی ساتھ میں )صَدَقہ کرے۔ دیگر تمام نیک اعمال میں بھی یِہی مُعامَلہ ہے۔‘‘ قاصِد نے واپَس جا کر فُقَرا(یعنی غریبوں ) کو یہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سنایا تو انہوں نے کہا: ہم راضی ہیں ، ہم راضی ہیں۔(اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ص۵۹۶،۵۹۷ مکتبۃ المدینہ، بحوالہ قُوتُ الُقُلوب ج۱ص۴۳۶)
میں بڑا امیرو کبیر ہوں ، شہِ دو سرا کا اسِیر ہوں
درِ مصطَفٰے کا فقیر ہوں ، مِرا رِفعَتوں پہ نصیب ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد