Brailvi Books

چڑیا اور اندھا سانپ
4 - 32
 اِس آیتِ کریمہ کے تحتمُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان ’’نور العرفان میں ‘‘ فرماتے ہیں : زمین پر چلنے والے کا اس لیے ذِکر فرمایا کہ ہم کو انہیں کا مُشاہَدہ ہوتا (یعنی دیکھنا ملتا) ہے، ورنہ جِنّات، ملائکہ وغیرہ سب کو رب(عَزَّوَجَلَّ) روزی دیتا ہے۔ اس کی رزّاقِیَّت (یعنی رزق دینے کی صفت) صِرْف حیوانوں میں مُنحصر (مُنْ۔حَ ۔ صَر یعنی موقوف) نہیں ، جو جس روزی کے لائق ہے اُس کو وُہی ملتی ہے۔ بچّے کو ماں کے پیٹ میں اور قسم کی روزی ملتی ہے اور پیدائش کے بعد دانت نکلنے سے پہلے اور طرح کی، بڑے ہو کر اور طرح کی، غر ضیکہ دَآبَّۃ  (یعنی زمین پر چلنے والا) میں بھی عُمُوم(یعنی ہر کوئی شامل) ہے اور رِزْق میں بھی۔  (نور العرفان ص ۳۵۳بتغیر قلیل)
غریبوں کے مزے ہو گئے (حکایت)
   بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں ایک بار فُقَرائِ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اپنا قاصِد (یعنی نُمایَندہ)بھیجا جس نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: میں فُقَرا(یعنی غریبوں ) کا نمایَندہ بن کر حاضِر ہوا ہوں ۔ مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہیں بھی مرحبااور اُنہیں بھی جن کے پاس سے تم آئے ہو! تم ایسے لوگوں کے پاس سے آئے ہو جن سے میں مَحَبَّت کرتا ہوں ۔‘‘ قاصِد نے عرض کی: ’’ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! فُقَرا (یعنی غریبوں)نے یہ گزارِش کی ہے کہ مال دار حضرات جنّت کے دَرَجات لے گئے!وہ