(یعنی دکھیارا ) ۔اس کے حاشیے میں سرکاراعلیٰ حضرت،امام اہلِ سنّت ، مولاناشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :اس (یعنی دکھیارے اور ناچار وناشاد(یعنی غمزدہ)کی دعا کی قَبولیَّت) کی طرف توخود قراٰنِ کریم میں ارشاد موجود ہے:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ (پ۲۰ اَلنَّمل ۶۲)
ترجَمۂ کنزالایمان:یا وہ جو لاچار کی سنتا ہے، جب اسے پکارے اور دور کردیتا ہے برائی۔
غریب شہزادے پر اعلٰی حضرت کی انفِرادی کوشِش
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ایک صاحِب ساداتِ کرام سے اکثر میرے پاس تشریف لاتے اور غربت واِفلاس کے شا کی رہتے(یعنی شکایت کرتے)۔ ایک مرتبہ بہت پریشان آئے ، میں نے اُن سے دریافت کیا کہ جس عورت کو باپ نے طلاق دے دی ہو کیا وہ بیٹے کو حلال ہوسکتی ہے ؟ فرمایا: ’’نہیں ۔‘‘ میں نے کہا: حضرت امیرالمؤمنین مولا علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)نے جن کی آپ اولاد میں ہیں ،تنہائی میں اپنے چہرۂ مبارَک پر ہاتھ پھیر کر اِرشاد فرمایا:’’ اے دنیا! کسی او رکو دھوکا دے میں نے تجھے وہ طلاق دی جس میں کبھی رَجْعَت (یعنی واپَسی)نہیں ۔‘‘پھر ساداتِ کرام کا اِفلاس (یعنی تنگدستی میں مبتلا ہونا) کیا تعجُّب کی بات ہے!سیِّد صاحب نے فرمایا :’’وَاللّٰہ! میری تسکین ہوگئی ۔‘‘وہ اب زندہ موجود ہیں اس روز سے کبھی شاکی نہ ہوئے ۔(یعنی تنگدستی کی شکایت نہیں کی) (ملفوظات اعلٰی حضرت ص۱۲۷تا۱۲۸)