یہ دونوں خاندان بھی مُسلمانوں کے ساتھ’’ شِعْبِ ابی طالب‘‘ میں مَحصُور(یعنی مُقیّد) تھے۔
بڑی سختی سے کرتے تھے قریش اِس گھر کی نگرانی نہ آنے دیتے تھے غلّہ ادھر تاحدِّ اِمکانی
کوئی غَلّے کا سوداگر اگر باہَر سے آجاتا تو رستے ہی میں جا کر بُولَہَب کمبخت بہکاتا
پہاڑوں کا دَرّہ اِک قَلعۂ مَحصُور تھا گویا خُدا والوں کو فاقوں مارنا منظور تھا گویا
رسولُ اللّٰہ لیکن مُطمئن تھے اور صابِر تھے
خُدا جس حال میں رکھے اِسی حالت پہ شاکر تھے
چمڑے کا ٹکڑا کھا لیا
اب صورتِ حال یہ تھی کہ مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں باہَر سے جو بھی غَلّہ (یعنی اناج) آتا کُفّارِ جفا کاراسے خود ہی خریدلیتے اور مُسلمانوں تک نہ پہنچنے دیتے ۔ جب مَحصُورِین(یعنی شِعْبِ ابی طالِب میں مُقَیّد رہنے والوں ) کے بچے بھوک سے بِلبِلاتے تو کُفّارِ ناہَنجار اِن کی آوازوں پر قَہقَہے لگاتے اور خُوشی مناتے تھے، خواتین کا دُودھ خشک ہوگیا تھا، محصورِین (مَح۔صُو۔رِین)کئی کئی روز تک بھوکے پڑے رہتے، بعض اوقات بھوک سے بے تاب ہو کر دَرَختوں کے پتّے اُبال کر کھا کر پیٹ بھرتے۔حضرتِ سیِّدُنا سَعد ابن ابی وَقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ ایک بار رات کو انہیں سُوکھے ہوئے چمڑے کا ایک ٹکڑا کہیں سے مل گیاآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اُسے پانی سے دھویا، آگ پر بھُونا، کُوٹ کر پانی میں گھولا اور سَتُّوکی طرح پی کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی ۔ (اَلرَّوْضُ الْاُنُف ج۲ ص ۱۶۱) ؎