کچھ کُھل کر نیکی کی دعوت شُروع کرنے کے بعد ہوا۔لہٰذا جب بھی کسی کو نیکی کی دعوت دینے اور اس کے سبب کوئی تکلیف اُٹھانی پڑ جائے توسلطانِ خیرُالْاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی راہِ تبلیغِ اسلام میں پیش آنے والی تکالیف وآلام کو یاد کر کے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیجئے کہ اُس نے دین کی خاطر سختیاں جھیلنے والی سُنّت ادا کرنے کی سَعادت بخشی۔اِس طرح اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّشیطان ناکام و نامُراد ہوگا اور صَبْر کرنا آسان ہو جائے گا۔ یقیناً راہِ خُدا میں تکلیفیں اُٹھانا بھی سُنّت اور اِن پر صبر کرنا بھی سُنّت اور باوُجُود سخت ترین مُشکلات کے نیکی کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھنا بھی سُنّت ہے۔ ؎
سُنّتیں عام کریں دین کا ہم کام کریں
نیک ہو جائیں مُسلمان مدینے والے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۴} شِعْبِ اَبی طالِب
اعلانِنُبُوَّت کے ساتویں سال جب کُفَّارِ قریش نے دیکھا کہ اِن کے بے پناہ ظلم و ستم کے باوُجُود مُسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے اور حمزہ و عُمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسے حَضَرات بھی ایمان لاچکے ہیں ۔شاہِ حَبشہ نَجَّاشی نے بھی مسلمانوں کو پناہ دے دی ہے تو’’خَصائِصِ کُبریٰ‘‘کی روایت کے مطابق انہوں نے بِالاتِّفاق یہ فیصلہ کیا کہ( حضرت سیِّدُنا ) محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)عَلَی الْاِعلانشہید کردیا