Brailvi Books

بھیانک اُونٹ
12 - 33
میرے پیارے آقا میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اب بھی ہمّت نہ ہاری، دوسرے لوگوں کی طرف تشریف لائے اور انہیں دعوتِ اسلام پیش کی۔ آہ ! صد آہ !  سرورِ کائنات،شاہِ موجودات، محبوبِ ربُّ الْارضِِ وَالسَّمٰوٰت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیغامِ نَجات کو سننے کے لیے کوئی تیّار ہی نہ تھا، افسوس ! وہ لوگ اپنے عظیم مُحسِن  کو دشمن سمجھ بیٹھے اور طرح طرح سے دل آزاریوں پر اُتر آئے۔ اُن کی بکواس کو صَفَحۂ قرطاس (یعنی کاغذ کے صفحے )پر تحریر کرنے کی سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ میں تاب کہاں ! اُن بے رحموں نے صرف اُول فُول بکنے ہی پر اِکتِفانہ کیا بلکہ اَوباش لڑکوں کو بھی پیچھے لگادیا۔یہ الفاظ تحریر کرتے ہوئے دل غم میں ڈوبا جارہا ہے ، آنکھیں پُر نم ہوئی جارہی ہیں ، آہ ! وہ ظالم نوجوان ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے چین، رحمتِ دارین، تاجدارِ حَرَمَین، سرورِ کَونَین ، نانائے حَسَنَین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان کو آ گئے اور تالیاں بجاتے، طرح طرح سے پَھبتیاں کستے پیچھا کرنے لگے، یکایک اِن ظالموں نے پتَّھر اُٹھا لیے اور دیکھتے ہی دیکھتے… آہ ! آہ ! صد ہزار آہ ! میرے آقا … میرے میٹھے میٹھے آقا … میرے دل کے سُلطان آقا… رحمتِ عالمیان آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسمِ مبارک پر پتَّھرائو شُروع کر دیا، ہائے کاش ! سگِ مدینہ عفی عنہ اُس وقت پیدا ہو کر ایمان لا چکا ہوتا… کاش ! دیوانہ وار… پروانہ وار … مستانہ وار…وہ سارے پتَّھر اپنے جِسم پر جھیلتا۔   ؎
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دن لکھے تھے