ستاتے اور طرح طرح سے مذاق اُڑاتے تھے۔ ہاں کافِر ہونے کے باوُجُود بعض لوگ ایسے بھی تھے جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہمدردی رکھتے تھے، اِنہیں میں سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چَچا ابو طالب بھی تھا، اس کا کُفّار پر کافی رُعب و دَبدبہ تھا۔ دسویں سال اس کا اِنتقال ہوگیا۔ اب کافِروں کے حوصلے ایک دم بُلند ہوگئے اور انکی طرف سے ظلم و ستم کی آندھیوں نے خوب زور پکڑ لیا ۔ چُنانچِہ رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طائِف کا قَصد (یعنی ارادہ)فرمایا تاکہ وہاں جا کر لوگوں کو اِسلام کی دعوت عنایت فرمائیں ، طائف پہنچ کر بانیِ اسلام ، شَہَنْشاہِ خیرُالْاَنام،محبوبِ ربُّ السَّلام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہلے پہل بَنو ثَقِیف کے تین سرداروں کو اِسلام کا پیغام پہنچایا۔
وہ ہادی جو نہ ہوسکتا تھا غَیرُاللّٰہ سے خائِف دِیا پیغامِ حق طائف میں ، طائِف کے رئیسوں کو
چلااِک رو ز مکّے سے نکل کر جانبِ طائف دکھائی جِنسِ رُوحانی کمینوں کو خسِیسوں ۱؎ کو
قلم کانپتا ہے !
افسوس!ان نادانوں نے حُسنِ اَخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور، محبوبِ ربِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیکی کی دعوت سُن کر بجائے سرِ تسلیم خم کرنے کے انتِہائی سَرکشِی کا مُظاہَرہ کیا اور طرح طرح سے بکواس کرنے لگے۔ آہ ! ان بداَخلاق سرداروں نے ایسے ایسے گُستاخانہ جُملے بَکے کہ اِن کو قَلَمبند کرنے سے سگِ مدینہ عفی عنہ ۲؎ کا قَلم کانپتا ہے،
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
۱؎ خَسِیس کی جمع ۔ نالائقوں ۔ ۲؎ عُ۔فِ۔یَ۔عَنْہُ یعنی اسے مُعافی دی جائے۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِس کومُعاف فرمائے۔