مسئلہ ۱۴: مضارِب نے رب المال کو مضاربۃً مال دے دیا یہ دوسری مضارَبت صحیح نہیں اور پہلی مضاربت بدستور صحیح ہے اور نفع اُسی طور پر تقسیم ہوگا جو باہم ٹھہرا ہے۔(1) (عالمگیری)
مسئلہ ۱۵: مضارِب و رب المال میں مضاربت کی صحت و فساد (2)میں اختلاف ہے اس کی دو صورتیں ہیں اگر مضارِب فساد کا مدّعِی (3)ہے تو رب المال کا قول معتبر اور رب المال نے فساد کا دعویٰ کیا تو مضارب کا قول معتبر ،اس کا قاعدہ یہ ہے کہ عقود (4)میں جو مدعی صحت ہے اُس کا قول معتبر ہوتا ہے ہاں اگر رب المال یہ کہتا ہے کہ تمھارے لیے دس ۱۰ کم تہائی نفع شرط تھا مضارِب کہتا ہے تہائی نفع میرے لیے تھا یہاں رب المال کا قول معتبر ہے حالانکہ اُس کے طور پر مضاربت فاسد ہے اور مضارب کے طور پر صحیح ہے کیونکہ یہاں مضارِب زیادت کا مدعی ہے اور رب المال اِس سے منکر۔(5) (درمختار)
مسئلہ ۱۶: مضاربت کبھی مطلق ہوتی ہے جس میں زمان ومکان(6)اور قسم تجارت کی تعیین نہیں ہوتی روپیہ دے دیا ہے کہ تجارت کرو نفع میں دونوں کی اِس طرح شرکت ہوگی اور کبھی مضاربت میں طرح طرح کی قیدیں ہوتی ہیں۔ مضارَبت مُطْلقہ (7)میں مضارِب کو ہر قسم کی بیع کا اختیار ہے نقد بھی بیچ سکتا ہے اودھار بھی ،مگر ایسا ہی اودھار کرسکتا ہے جو تاجروں میں رائج ہے اسی طرح ہر قسم کی چیز خریدسکتا ہے خرید و فروخت میں دوسرے کو وکیل کرسکتا ہے۔ دریا اور خشکی کا سفر بھی کرسکتاہے اگرچہ رب المال نے شہر کے اندر اس کو مال دیا ہو۔ ابضاع بھی کرسکتا ہے یعنی دوسرے کو تجارت کے لیے مال دے دے اور نفع اپنے لیے شرط کرے یہ ہوسکتا ہے بلکہ خود رب المال کو بھی بضاعت کے طور پر مال دے سکتا ہے اور اس سے مضارَبت فاسد نہیں ہوگی۔ مضارب مال کو کسی کے پاس امانت رکھ سکتا ہے۔ اپنی چیز کسی کے پا س رہن رکھ سکتا ہے دوسرے کی چیز اپنے پاس رہن لے سکتا ہے کسی چیز کو اجارہ پر دے سکتا ہے کرایہ پر لے سکتا ہے۔ مشتری (8)نے ثمن کا کسی پر حوالہ کردیا مضارب اِس حوالہ کو قبول کرسکتا ہے کیونکہ یہ ساری باتیں تجار(9)کی عادت میں داخل ہیں کبھی یہاں مال بیچتے ہیں کبھی باہر لے جاتے ہیں اور اس کے لیے گاڑی کشتی جانور وغیرہ کو کرایہ پر لینا ہوتا ہے ورنہ مال کس طرح لے جائے گا۔ دوکان پر کام کرنے کے لیے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی