خریدو گے تو ایک تہائی تمہاری، اِس صورت میں جیسا کہا اُسی کے موافق نفع تقسیم کیا جائے گا، مگر گیہوں خرید چکا تو اب جَو یا آٹا نہیں خریدسکتا۔(1) (عالمگیری)
مسئلہ ۷: مالک نے یہ کہا کہ اگر اس شہر میں کام کرو گے تو تمہیں ایک تہائی نفع ملے گااور باہر کام کرو گے تو نصف ،اس میں خریدنے کا اعتبار ہے بیچنے کا اعتبار نہیں اگر اس شہر میں خریداتو ایک تہائی دی جائے گی بیچنا یہاں ہویا باہر۔(2)(عالمگیری)
مسئلہ ۸: مضاربت کا حکم یہ ہے کہ جب مضارِب کو مال دیا گیا اُس وقت وہ امین ہے اور جب اُس نے کام شروع کیا اب وہ وکیل ہے اور جب کچھ نفع ہوا تو اب شریک (3)ہے اور رب المال کے حکم کے خلاف کیا تو غاصب ہے اور مضارَبت فاسد ہوگئی تو وہ اَجیر (4)ہے اور اِجارہ بھی فاسد۔ (5) (درمختار)
مسئلہ ۹: مضاربت میں جو کچھ خسارہ ہوتا ہے وہ رب المال کا ہوتا ہے اگریہ چاہے کہ خسارہ مضارِب کوہو مال والے کو نہ ہو اُس کی صورت یہ ہے کہ کل روپیہ مضارِب کو بطور قرض دیدے اور ایک روپیہ بطور شرکت عنان دے یعنی اُس کی طرف سے وہ کل روپے جو اس نے قرض میں دیے اور اس کا ایک روپیہ اور شرکت اس طرح کی کہ کام دونوں کریں گے اور نفع میں برابر کے شریک رہیں گے اور کام کرنے کے وقت تنہا وہی مُستَقْرِض(6) کام کرتا رہا اس نے کچھ نہیں کیا اِس میں حرج نہیں کیونکہ اگر رب المال کام نہ کرے تو شرکت باطل نہیں ہوتی اب اگر تجارت میں نقصان ہوا تو ظاہر ہے کہ اِس کا ایک ہی روپیہ ہے سارا مال تومستقرض کا ہے اُس کا خسارہ ہوا رب المال کاکیاایسا خسارہ ہوا کیونکہ جو کچھ مستقرض کودیا ہے وہ قرض ہے اُس سے وصول کریگا۔(7) (درمختار)
مسئلہ ۱۰: مضاربت اگر فاسد ہوجاتی ہے تو اجارہ کی طرف منقلب ہوجاتی ہے یعنی اب مضارِب کو نفع جو مقرر ہوا ہے وہ نہیں ملے گا بلکہ اُجرتِ مِثل ملے گی چاہے نفع اس کام میں ہواہو یا نہ ہو مگر یہ ضرورہے کہ یہ اُجرت اُس سے زیادہ نہ ہو جو مضارَبت کی صورت میں نفع ملتا۔(8) (درمختار)