شرط کہ تم کو آدھا یا تہائی نفع دیا جائے گا یعنی دونوں میں سے کسی ایک کو معین نہیں کیا بلکہ تردِیدکے ساتھ بیان کرتا ہے اور اگر اُس شرط سے نفع میں جہالت نہ ہو تو وہ شرط ہی فاسد ہے اور مضارَبت صحیح ہے مثلاًیہ کہ نقصان جو کچھ ہوگا وہ مضارِب کے ذمہ ہوگا یا دونوں کے ذمہ ڈالا جائے گا۔
(۷) مضارِب کے لیے نفع دینا شرط ہو۔ اگر راس المال میں سے کچھ دینا شرط کیا گیا یا راس الما ل اور نفع دونوں سے دینا شرط کیا گیا مضاربت فاسد ہو جائے گی۔ (1) (بحر، درر)
مسئلہ ۳: رب المال نے یہ کہا کہ جو کچھ خدا نفع دے گا وہ ہم دونوں کا ہوگا یا نفع میں ہم دونوں شریک ہوں گے یہ جائز ہے اور نفع دونوں کو برابر برابر ملے گا اور اگر مضارِب کو روپیہ دیتے وقت یہ کہا کہ ہمارے ما بین اُس طرح تقسیم ہوگا جو فلاں و فلاں کے مابین ٹھہرا ہے اگر دونوں کو معلوم ہے جو اُن کے مابین ٹھہرا ہے تو مضاربت جائز ہے اور اگر دونوں کو یا ایک کو معلوم نہ ہو کہ اُن کے مابین کیا ٹھہرا ہے تونا جائز ہے اور مضارَبت فاسد۔ (2) (عالمگیری)
مسئلہ ۴: روپیہ دیا اور مضارِب سے کہہ دیا کہ تمھارا جو جی چاہے نفع میں سے مجھے دے دینا یہ مضاربت فاسد ہے۔ (3) (عالمگیری)
مسئلہ ۵: ایک ہزار روپے مضارِب کواِس طور پر دیے کہ نفع کی دوتہائیاں مضارب کی ہوں گی(4) بشرطیکہ ایک ہزار روپے اپنے بھی اس میں شامل کرلے اور دوہزار سے کام کرے اُس نے ایسا ہی کیا اور نفع ہوا تو ایک ہزار کا کل نفع مضارب کوملے گااورایک ہزارجورب المال کے ہیں ان کے نفع میں دوتہائیاں مضارِب کی اور ایک تہائی رب المال کی ہوگی۔ اور اگر رب المال نے کہہ دیا کہ کل نفع کی دو تہائیاں میری اور ایک تہائی مضارِب کی تو نفع کو برابر تقسیم کریں اور اس صورت میں مضاربت نہیں ہوئی بلکہ اِبضاع ہے کہ اپنے مال کا سارا نفع خود لینا قرار دید یا۔(5) (عالمگیری)
مسئلہ ۶: روپے دیے اور کہہ دیا کہ گیہوں خریدو گے تو آدھا نفع تمھارا اور آٹا خریدو گے تو چوتھائی نفع تمھارا اور جَو