بہارِشریعت حصّہ اول (1) |
یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے(1) یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔(2) عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔(3) عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال(4) کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے(5) اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا(6) ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1۔۔۔۔۔۔ ( کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہ،) پ۲۰، القصص: ۸۸. وفي''المعتقد المنتقد''، و منہ أنّہ باق، لیس لوجودہ آخر۔ أي: یستحیل أن یلحقہ عدم۔ وہو معنی کونہ أبدیا). انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، الأصل الثاني والثالث، تحت قولہ: (أنّہ تعالی قدیم لا أوّل لہ، وأنّ اللہ تعالی أبدي لیس لوجودہ آخر)، ص۲۲۔ ۲۴. 2۔۔۔۔۔۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ) پ۱، البقرۃ: ۲۱. (ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ) پ۷، الأنعام: ۱۰۲. (وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ) پ۱۵، بني اسرآئیل: ۲۳. (أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ) پ۱۲، یوسف: ۴۰. 3۔۔۔۔۔۔ (اَللہُ الصَّمَدُ) پ۳۰، الإخلاص: ۲. وفي ''منح الروض الأزہر'' في ''شرح الفقہ الأکبر''، ص۱۴: (اَللہُ الصَّمَدُ) أي: المستغنيعن کل أحد والمحتاج إلیہ کل أحد. 4۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی ذات کا عقل کے ذریعے اِحاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ 5۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا اِحاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے۔ 6۔۔۔۔۔۔ في''التفسیر الکبیر''، پ۷، الأنعام، تحت الآیۃ : ۱۰۳: (لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ) المرئي إذا کان لہ حد ونھایۃ وأدرکہ البصر بجمیع حدودہ وجوانبہ ونھایاتہ، صارکأنّ ذلک الأبصار أحاط بہ فتسمی ہذہ الرؤیۃ إدراکاً، أما إذا لم یحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤیۃ إدراکاً. فالحاصل: أنّ الرؤیۃ جنس تحتہا نوعان: رؤیۃ مع الإحاطۃ، ورؤیۃ لا مع الإحاطۃ، والرؤیۃ مع الإحاطۃ ہي المسماۃ بالإدراک فنفي الإدراک یفید نفي نوع واحد من نوعي الرؤیۃ، ونفي النوع لا یوجب نفي الجنس، فلم یلزم من نفي الإدراک عن اللہ تعالی نفي الرؤیۃ عن اللہ تعالی)، ج۵، ص۱۰۰.