اُجاگر ہوئی کہ شَفاعت کی نعمت پانے کیلئے ایمان کا سلامَت ہونا لازِمی ہے لہٰذا ہر ایک کو اپنے ایمان کی سلامَتی کی فکر کرنی چاہئے ۔ یقینا ایمان کی سلامتی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا میں پوشیدہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا اُس کی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری میں ہے اور ایمان کی بربادی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی میں پوشیدہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی اُس کی اور اُس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی میں ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں ایمان کی سلامَتی عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
مَرے ہوئے بچّے کا عقیقہ؟
سُوال7:اگر بچّہ پیدا ہونے کے بعد سات دن سے پہلے پہلے فَوت ہوجائے تو اُس کے عقیقے کا کیا کریں ؟ اگر مرنے کے بعد کردیں تو والِدَین کی شَفاعت کرے گا یا نہیں ؟
جواب:اب عقیقے کی حاجت نہیں ایسا بچّہ شَفاعت کرسکے گا۔میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :جو مرجائے کسی عمر کا ہو اس کا عقیقہ نہیں ہوسکتا ،بچّہ اگر ساتویں دن سے پہلے ہی مرگیا تواُس کیعقیقہنہ کرنے سے کوئی اثر اُس کی شَفاعت وغیرہ پر نہیں کہ وہ وقتِ عقیقہ آنے سے پہلے ہی گزرگیا ، عقیقے کا وَقْت شریعت میں ساتواں دن ہے۔ جو بچّہ قبلِ بُلوغ (یعنی بالغ ہونے سے پہلے )مرگیا اور اُس کاعقیقہ کردیا تھا، یاعقیقیکی استِطاعت