Brailvi Books

اخبار کے بارے میں سوال جواب
4 - 59
مسلمان کے بارے میں بِلا اجازتِ شَرْعی یہ کہدینا کہ ’’ فُلاں نے خود کُشی کی ‘‘ یہ غیبت ہے ۔لہٰذانام و پہچان کے ساتھ کسی مسلمان کی خود کُشی کی اخبار میں خبر بھی نہ لگائی جائے کہ اس سے مرنے والے کی غیبت بھی ہوتی اور اس کے ساتھ ساتھ مرحوم کے اَہْل وعِیال کی عزّت پر بھی بٹّا لگتا ہے۔ (اور اگر خبر لگائی مَثَلاً ’’ فُلاں نے فُلاں کو قَتْل کر کے‘‘ یا’’ جُوا میں بڑی رقم ہار کر خود کشی کر لی۔‘‘تو ایسی خبر سے مرحوم کے خود کُشی کرنے سے قبل کا عیب بھی کُھلتا ہے جو کہ خبر لگانے والو ں کے حق میں دو غیبتوں یعنی گناہ دَر گناہ کا باعِث بنتا ہے۔ بلکہ اِس طرح کی خبروں کی اشاعت سے مَعَاذَ اللہ گناہوں اور عذابوں کی کثرت کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کیوںکہ اخبار کے ذَرِیعے ایسی خبریں ہزاروں ، لاکھوں افراد تک پہنچتی ہیں۔ وَالعِیاذُ بِاللّٰہِ تعالٰی) ہاں، اِس انداز میں تذکِرہ کیا(یا اخبار میں خبر لگائی )کہ پڑھنے یا سننے والے خود کشی کرنے والے کو پہچان ہی نہ پائے کہ وہ کون تھا تو حَرَج نہیں مگر یہ ذِہْن میں رہے کہ نام نہ لیا مگر گاؤں ، مَحَلّہ ، برادری، اوقات ،خود کشی کا (سبب و)اندازوغیرہ بیان کرنے سے خود کُشی کرنے والے کی شناخت ممکن ہے، لہٰذا پہچان ہو جائے اِس انداز میں تذکِرہ بھی غیبت میں شمار ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان خودکُشی کرنے سے اسلام سے خارِج نہیں ہو جاتا اِس کی نَمازِ جنازہ بھی ادا کی جائے گی ،اِس کیلئے(ایصالِ ثواب اور) دعائے مغفِرت بھی کریں گے۔ مرنے والے مسلمان کو(خواہ اُس نے خود کُشی ہی کی ہو) بُرائی سے