کرناہی مناسب ہے اگر چِہ افضل ومُستَحب ہو۔٭ چُنانچِہ ایک مقام پر میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہمسلمانوں کے اتّحاد کی اَھمِیَّت کو اُجاگر کرنے کیلئے نقل فرماتے ہیں: ’’لوگوں کی تالیفِ قلبی ( یعنی دلجوئی ) اور ان کو مُجتَمع ( مُتَّحِد) رکھنے کے لئے اَفضل کو ترک کرنا انسان کے لئے جائز ہے تا کہ لوگوں کو نفرت نہ ہو جائے جیسا کہ نبیِّ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم علیہ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسلیم نے بیتُ اللہ شریف کی عمارت کو اس لئے اہلِ قریش کی بنیادو ں پر قا ئم رکھا تا کہ جو لوگ نئے نئے اسلام لائے وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۷ ص ۶۸۰ مُلَخَّصاً) ٭تَنفیرِ مسلمین (یعنی مسلمانوں کو نفرت میں مبتلا کرنے)سے بچنے کیلئے ضَرورتاً مُستحَب کو ترک کر دینے کا حکم ہے۔ جیسا کہ میرے آقااعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسلمانوں کے درمیان پیار و مَحَبَّتکی فَضا قائم رکھنے کا ایک مَدَنی اُصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اِتیانِ مُستَحب و ترکِ غیرِ اَولیٰ پر مُداراتِ خلق و مُراعاتِ قُلوب کو اہم جانے اور فتنہ و نفرت و ایذاو وحشت کا باعِث ہونے سے بَہُت بچے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۴ ص۵۲۸)٭ میرے آقا اعلیٰ حضر ت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ