(سنن ابی داود، کتاب السنۃ، باب فی ذراری المشرکین، الحدیث:۴۷۲۰،ج۴، ص۳۰۵)
پیارے اسلامی بھائیو! بُری صحبت سے دین و دنیا دونوں تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، بُرے ماحول میں انسان کی عادات اور اطوار بگڑ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی زیادہ ہونے لگتی ہے پیارے مصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پیاری پیاری سنتیں پامال ہونے لگتی ہیں آہستہ آہستہ انسان فسق و فجور کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ ایسے شخص کی بیداری شیطان کے لئے باعثِ فرحت و مسّرت ہوتی ہے،۔ لہذا شیطان لعین اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ ایسا شخص بیدار ہی رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ معاشرہ اور اس میں بسنے والے افراد اس کے فسق وفجور کا نشانہ بن سکیں چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں۔
لَا شَیْءَ اَشَدُّ عَلیٰ اِبْلِیسَ مِنْ نَّومِ الْعَاصِیْ فَاِذَا نَامَ الْعَاصِیْ یَقُوْلُ مَتٰی یَنْتَبِہُ وَیَقُوْمُ حَتّٰی یَعْصِیَ اللہَ.
(کشف المحجوب، باب فی نومہم فی السفروالحضر، ص۳۹۵)
ترجمہ :یعنی شیطان پر گناہ گار کے سونے سے بڑھ کر کوئی چیز سخت نہیں کہ جب گناہ گار سوتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ یہ کب اٹُھے گا جو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریگا۔