روزے رکھے ۔ البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمضان کے روزوں پر اثر پڑے گا، یہیمَحمَل (مَح۔ مَل یعنی مرادو مقصد) ہے اُن احادیث کا جن میں فرمایا گیا کہ نصف (یعنی آدھے ) شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو ۔ (تِرمذی حدیث ۷۳۸) (نُزہۃُالقاری ج ۳ ص ۳۷۷ ، ۳۸۰ )
دعوتِ اسلامی میں روزوں کی بہاریں
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’فیضانِ سنَّت (جلد اوّل) ‘‘ صَفْحَہ1379پر ہے: حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں : مذکورہ حدیث ِ پاک میں پورے ماہِ شَعْبانُ الْمُعَظَّم کے روزوں سے مراد اکثر شَعْبانُ الْمُعَظَّم (یعنی مہینے کے آدھے سے زیادہ دنوں ) کے روزے ہیں ۔ (مُکاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۳) اگر کوئی پورے شَعْبانُ الْمُعَظَّم کے روزے رکھنا چاہے تو اُس کومُمانعت بھی نہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّتبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے کئی اسلامی بھائی اور اسلامی بہنوں میں رَجَبُ الْمُرَجَّب اور شَعْبانُ الْمُعَظَّم دونوں مہینوں میں روزے رکھنے کی ترکیب ہوتی ہے اور مسلسل روزے رکھتے ہوئے یہ حضرات رَمَضانُ الْمُبارَکسے مل جاتے ہیں ۔
شَعْبان کے اکثر روزے رکھنا سنّت ہے
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں : حضورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو میں نے شعبان سے زیادہ کسی مہینے