کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے؟ تو محبوبِ ربُّ العِباد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وَقْتِ رخصت آئے اور میں روزہ دار ہوں ۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی ج۴ص۲۷۷حدیث۴۸۹۰)
آقا شعبان کے اکثر روزے رکھتے تھے
بخاری شریف میں ہے: حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے: اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس وَقْت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔ (صَحیح بُخاری ج۱ص۶۴۸حدیث ۱۹۷۰)
حدیثِ پاک کی شرح
شارِحِ بخاری حضرتِ عَلَّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیباً (تَغ۔ لی۔ باًیعنی غلبے اور زِیادت کے لحاظ سے) کل (یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کردیا ۔ جیسے کہتے ہیں : ’’فلاں نے پوری رات عبادت کی‘‘ جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اورضروریات سے فراغت بھی کی ہو، یہاں تَغْلِیباًاکثرکو ’’کل‘‘ کہہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں : اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ