زہے نصیب! ساری ہی رات عبادت میں گزاری جائے۔
سبز پرچہ
اَمیرُ المُؤمنینحضرتِ سَیِّدُناعمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ شعبانُ المُعَظَّم کی پندرہویں رات یعنی شبِ براء ت عبادت میں مصروف تھے۔ سراُٹھایا تو ایک ’’سبز پرچہ‘‘ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہواتھا، اُس پر لکھا تھا، ’’ہٰذہٖ بَرَاءَۃٌ مِّنَ النَّارِ مِنَ الْمَلِکِ الْعَزِیْزِ لِعَبْدِہٖ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْز‘‘ یعنی خدائے مالک وغالب کی طرف سے یہ ’’جہنَّم کی آگ سے آزادی کا پروانہ‘‘ ہے جو اُس کے بندے عمر بن عبد العزیز کو عطا ہوا ہے۔ (تفسیر رُوحُ البَیان ج۸ص۴۰۲)
سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت میں جہاں اَمیرُ المُؤمنین سَیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عظمت وفضیلت کا اظہار ہے وَہیں شبِ بَراءَ ت کی رِفعت و شرافت کا بھی ظہور ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّیہ مُبارَک شب جہنَّم کی بھڑکتی آگ سے بَرَاءَت (بَر۔ ا۔ ء۔ ت یعنی چھٹکارا) پانے کی رات ہے، اِسی لئے اِس رات کو ’’شبِ بَرَاءَ ت ‘‘ کہا جاتا ہے۔
مغرِب کے بعد چھ نوافِل
معمولاتِ اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سے ہے کہ مغرب کے فرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکعت نفل (نَفْ۔ لْ) دو دو رَکعت کر کے ادا کئے جائیں ۔ پہلی دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے: ’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّان دورَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما ۔ ‘‘ دوسری دو رَکعتوں میں یہ نیت فرمایئے: ’’یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رکعتوں کی بَرکت سے بلاؤں سے