رکھتے ہیں ، فرماتا ہے : ’’اِن کورہنے دو، جب تک آپَس میں صلح نہ کرلیں ۔ ‘‘لہٰذا اہل سنت کو چاہئے کہحتَّی الْوَسْع قبل غروب آفتاب 14 شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کر لیں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کردیں یا معاف کرالیں کہ بِاِذْنِہٖ تَعَالٰی حُقُوقُ الْعِباد سے صحائف اَعمال (یعنی اعمالنامے) خالی ہو کر بارگاہِ عزت میں پیش ہوں ۔ حقوقِ مولیٰ تعالیٰ کے لئے توبۂ صادِقہ (یعنی سچی توبہ) کافی ہے۔ (حدیثِ پاک میں ہے: ) اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنبَ لَہٗ (یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں (ابن ماجہ حدیث۴۲۵۰) ایسی حالت میں بِاِذْنِہٖ تَعَالٰیضرور اِس شب میں اُمید مغفرت تامہ (تامْ۔ مَہْ یعنی مغفرت کی پکی امید) ہے بشرطِ صحت عقیدہ۔ (یعنی عقیدہ درست ہونا شرط ہے ) وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم۔ (اور وہ گناہ مٹانے والارحمت فرمانے والا ہے) یہ سب مُصالحت اخوان (یعنی بھائیوں میں صلح کروانا) ومعافیٔ حقوق بِحَمْدِہٖ تعالٰی یہاں سالہائے دراز (یعنی کافی برسوں ) سے جاری ہے، اُمیدہے کہ آپ بھی وہاں کے مسلمانوں میں اس کااِجْرا کرکے مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا یَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِ ہِمْ شَیٌٔ (یعنی جو اسلام میں اچھی راہ نکالے اُس کیلئے اِس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کا ثواب ہمیشہ اسکے نامۂ اعمال میں لکھا جائے بغیر اس کے کہ اُن کے ثوابوں میں کچھ کمی آئے ) کے مصداق ہوں اور اِس فقیر کیلئے عفْو وعافیت دارَین کی دُعا فرمائیں۔ فقیر آپ کے لئے دُعا کرتا ہے اور کرے گا۔ سب مسلمانوں کو سمجھادیا جائے کہ
وَہاں (یعنی بارگاہِ الٰہی میں ) نہ خالی زَبان دیکھی جاتی ہے نہ نفاق پسند ہے، صلح ومُعافی سب سچے دل سے ہو ۔ وَالسلام۔ فقیراحمد رضا قادِری عُفِیَ عَنْہٗ از: بریلی
پندَرہ شَعبان کا روزہ
حضرتِ سَیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی شیر خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم، رء وْفٌ رَّحیم عَلَيْهِ اَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالتَّسْلِيْم کا فرمانِ عظیم ہے: جب پندَرَہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزہ رکھو۔ بے شک اللہ تَعَالٰی غروب آفتاب سے آسمانِ دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے: ’’ہے کوئی مجھ سے