Brailvi Books

حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَاء(جلد:4)ترجمہ بنام اللہ والوں کی باتیں
56 - 475
بکھرے ہوئے تھے۔ آپ کو منظر پسند آیا تو آپ اس میں داخل ہوئے غسل فرمایا اور اپنے کپڑے دھوئے پھر نہر سے باہر تشریف لائے اور اپنے کپڑے خشک ہونے کے لیے ڈال دیئے اور خود واپس پانی میں چلے گئےیہاں تک کہ  کپڑے خشک ہو ئے تو آپ نے باہر آکر پہن لیے۔ پھر آپ سرخ چٹان کی طرف بڑھے جو کہ نہر کی بالائی جانب تھی۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے وہاں دیکھا کہ دو آدمی قبر کھود رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس کھڑے ہوگئےاور فرمایا: کیا میں آپ کی مدد کروں؟ وہ بولے کیوں نہیں۔ آپ نیچے اترے اور کھدائی شروع کردی۔ آپ نے ان سے فرمایا: کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ جس کی یہ قبر ہے وہ کس کی مثل ہے (یعنی اس کا قد وغیرہ کتنا ہے)؟ وہ بولے جی وہ آپ ہی کی قدوقامت کا ہے۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اس قبر میں لیٹ گئے اور مٹی آپ پربرابر ہو گئی اورسوائے رحمت الٰہی کے کسی نے بھی آپ کی قبر کو نہ دیکھا اوراللہ عَزَّ   وَجَلَّ نےاس رحمت کو بھی گونگا بہرا کر دیا۔
حکمت کی باتیں:
(4680)…حضرتِ سیِّدُنا وہب بن مُنَبِّہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ (اللہ عَزَّ   وَجَلَّ نے ارشادفرمایا:) اگر میں میت کا بدبودار ہونا مقرر نہ کرتا تو لوگ اسے  گھر پر ہی رکھ لیتے۔ اگر میں کھانے کا خراب ہو جانا مقرر نہ فرماتا تو امرا  غریبوں کو محروم رکھ کراس کو ذخیرہ کر لیتے۔ اگر میں پریشانیوں اور غموں کا ختم ہونا مقرر نہ کرتا تو  نہ دنیا کا  نظام  چلتا اور نہ ہی میری عبادت کی جاتی۔
(4681)…حضرتِ سیِّدُنا وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: حضرتِ سیِّدُنا لقمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹے! اہل ذکر اور غافلین کی مثال نور اور اندھیرے کی سی ہے۔
تورات کی چار سطریں:
(4682)…حضرتِ سیِّدُنا وہب بن منبہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: میں نے تورات میں پے درپے چار سطریں پڑھیں:(۱)…جس نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب پڑھی اور یہ گمان کیا کہ وہ اسے نہ بخشے گا تو وہ اللہ عَزَّ   وَجَلَّ کی آیات سےمذاق کرنے والا ہے(۲)…جس نے کسی مصیبت  کی شکایت کی اس نے  اپنے ربّ کی شکایت کی (۳)… جودوسرے کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر افسردہ  ہوا وہ اپنے ربّ کی تقسیم پر ناراض  ہوا اور (۴)…جس نے کسی مال دار کے لیے عاجزی کی اس کا تہائی دین چلا گیا۔